کیا ورثاء کی رضامندی سے ترکہ کے برابر حصے کیے جاسکتے ہیں؟


سوال نمبر:5017
السلام علیکم مفتی صاحب! ایک شخص فوت ہوا جس نے ورثہ میں ایک مکان اور کپڑے کی دوکان چھوڑی جبکہ اس کے ورثاء میں بیٹے، بیٹیاں اور بیوی شامل تھی۔ متوفی کی اولاد چھوٹی ہونے کی وجہ سے اس کے بھائی نے دوکان سنبھال لی اور متوفی کے خاندان کا نان و نفقہ دوکان کی آمدن سے پورا کرنا شروع کر دیا۔ تقریباً 9-8 سال کے بعد متوفی کے بھائی نے دوکان متوفی کے بڑے بیٹے کے حوالے کر دی۔ اس بیٹے کے پاس دوکان تقریباً 12 سال تک رہی‘ اس کے بعد اس کی شادی ہوئی اور یہ الگ مکان میں رہنا شروع ہوگیا۔ بعدازاں دیگر بھائی بھی اپنے اپنے کاموں‌ میں‌ مشغول ہوگئے اور علیحدہ رہنا لگے۔ بڑا بیٹا اس کے بعد اپنی والدہ کو ماہنامہ ایک خاص مقدار میں پیسے دیتا رہا۔ والدہ یہ سمجھتی رہی کہ بیٹا اپنی طرف سے ان کو حصہ دے رہا ہے، جبکہ بیٹے کے بقول وہ دوکان کے منافع سے والدہ کو حصہ دے رہا تھا۔ اب بڑا بیٹا دوکان سے کسی کو بھی کوئی حصہ نہیں دے رہا۔ گھر فروخت کرنے کے بعد بھی کسی وارث کو کوئی حصہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی اب بڑا بیٹا دوکان کے نفع و نقصان کا کوئی حساب دے رہا ہے۔ دیگر ورثاء اپنے اندازے کے مطابق پراپرٹی سے حصہ مانگتے ہیں جبکہ بڑا بیٹا دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ مسئلہ کئی سالوں سے جوں‌ کا توں پڑا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس مسئلے کا یہ حل بتایا ہے کہ ساری جائیداد کو تین حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ بڑے بیٹے کو دے دیں اور دو حصے باقی ورثاء میں تقسیم کر دیں۔ آپ شرعی حوالے سے اس کی راہنمائی کر دیں۔ شکریہ

  • سائل: بکشیمقام: ہندوستان
  • تاریخ اشاعت: 27 دسمبر 2018ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا.

مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے۔

النساء، 4: 7

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ والدین کے ترکہ میں اولاد کے حصے خدا تعالیٰ نے مقرر کر دیے ہیں جن میں کمی یا بیشی نہیں کی جاسکتی۔

آپ نے اپنے سوال میں مرحوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کی تعداد بیان نہیں کی‘ اس لیے ہم ترکہ کی مکمل تقسیم بتانے سے قاصر ہیں۔ تاہم وراثت کا اصول ذہن نشین کر لیں کہ جب ورثاء میں بیوی اور بیٹے بیٹیاں شامل ہوں تو بیوی کو کل قابلِ تقسیم مال میں سے آٹھواں حصہ (1/8) ملے گا۔ کیونکہ ارشادِ ربانی ہے:

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔

النساء، 4: 12

مرحوم کی بیوہ کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی ترکہ اولاد میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر بیٹے کو بیٹی سے دوگنا دیا جائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.

اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔

النساء، 4: 11

اس لیے مرحوم کے ترکہ کو تین برابر حصوں میں تقسیم کرنے کی بجائے اس کی تقسیم احکامِ الٰہی کی روشنی میں کریں تاکہ تمام ورثاء کو ان کا صحیح حق مل جائے۔ اگر بڑا بیٹا خود قبضہ کر کے ناحق مال کھائے گا تو اس کے بارے میں اگلی آیت میں سخت وعید سنائی گئی ہے:

وَمَن يَعْصِ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ.

اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرے اور اس کی حدود سے تجاوز کرے اسے وہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کے لئے ذلّت انگیز عذاب ہے۔

النساء، 4: 14

اور قرآنِ مجید میں ایک مقام پر فرمایا گیا ہے:

وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّاO وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاO

اور وراثت کا سارا مال سمیٹ کر (خود ہی) کھا جاتے ہو (اس میں سے افلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے)۔ اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔

الْفَجْر، 89: 19-20

اس لیے جو بھی ورثاء کو ان کے جائز حق سے محروم کرے گا وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کے سبب سخت گنہگار ہے اور عذاب کا مستحق ہے۔ لہٰذا تمام ورثاء کو شرعی تقسیم کے مطابق حصے دیے جائیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری