کیا غیرمسلم کو خون کا عطیہ دینا جائز ہے؟


سوال نمبر:4709
کیا غیرمسلم کو خون کا عطیہ دینا جائز ہے؟

  • سائل: احمد جمالمقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 14 فروری 2018ء

زمرہ: جدید فقہی مسائل

جواب:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لَا یَنْهٰکُمُ اﷲُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْهِمْط اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo

اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

اور مزید فرمایا:

اِنَّمَا یَنْهٰکُمُ اﷲُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰـتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰهَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْج وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَo

اللہ تو محض تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں (یعنی وطن) سے نکالا اور تمہارے باہر نکالے جانے پر (تمہارے دشمنوں کی) مدد کی۔ اور جو شخص اُن سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔

(الممتحنة، 60: 8-9)

مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں ہم ان لوگوں سے بھلائی کر سکتے ہیں جو ہمارے ساتھ جنگ نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں گھروں سے نکالتے ہیں یعنی فتنہ فساد نہیں کرتے۔ یہ بھلائی مالی حوالے سے تعاون کرنا بھی ہو سکتی ہے اور دیگر معاملات میں مدد کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ اور فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاهَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاط

جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)۔

(المائدة، 5: 32)

مذکورہ بالا آیت مقدسہ میں مسلم وغیر مسلم کی تقسیم کئے بغیر ناحق انسانی جان کو قتل کرنا، تمام انسانیت کو قتل کرنے اور اس کو بچانا، تمام حیاتِ انسانی کو بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا فتنہ پرور غیر مسلموں کے علاوہ باقی کفار کے ساتھ بطورِ انسان بھلائی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

مَرَّتْ بِنَا جَنَازَةٌ فَقَامَ لَهَا النَّبِيُّ وَقُمْنَا لَهٗ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اﷲِ، إِنَّهَا جِنَازَةُ یَهُودِيٍّ قَالَ: إِذَا رَأَیْتُمْ الْجِنَازَةَ فَقُومُوا.

ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ ہم عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! یہ تو کسی یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو (خواہ مرنے والے کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو)۔

  1. بخاري، الصحیح، 1: 441، رقم: 1249
  2. مسلم، الصحیح، 2: 660، رقم: 960

اور حضرت عبدالرحمن بن ابو لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سہل بن حُنَیف اور حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُن کے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔ دونوں کھڑے ہو گئے۔ اُن سے کہا گیا کہ یہ تو یہاں کے کافر ذمی شخص کا جنازہ ہے۔ دونوں نے بیان فرمایا:

إِنَّ النَّبِيَّ مَرَّتْ بِهِ جِنَازَةٌ، فَقَامَ فَقِیلَ لَهُ: إِنَّهَا جِنَازَةُ یَهُودِيٍّ، فَقَالَ: أَلَیْسَتْ نَفْسًا؟

(ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے جنازہ گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے۔ عرض کیا گیا: یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ (انسانی) جان نہیں ہے؟

  1. بخاري، الصحیح، 1: 441، رقم: 1250
  2. مسلم، الصحیح، 2: 661، رقم: 961

مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے امن پسند غیر مسلم کی جان بچانے کی خاطر خون کا عطیہ دینا جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی