اگر وارث کو حصہ نہ ملے تو اس کی اولاد کا وراثت طلب کرنا جائز ہے؟


سوال نمبر:3881
السلام علیکم جناب! ایک بندہ 1934 میں فوت ہوا، اور پسمندگان میں‌ اس نے ایک بیوہ، ایک 12 سالہ بیٹی اور ایک 5 یا 9 سالہ بیٹا چھوڑا۔ اس کی بیوہ نے 1934ء میں ہی زرعی زمین صرف بیٹے کے نام کر دی (معلوم نہیں کہ اس نے اپنے بیٹی سے اجازت لی ہے یا نہیں) وقت گزرا اور دونوں بھائی اور بہن میں تعلقات ٹھیک رھے۔ اپنی زندگی میں بہن نے بھائی سے کبھی مطالبہ نہیں کیا۔آخر 2006 میں بہن فوت ہو گئی تو متوفی کی اولاد جن کی عمریں 75 سال سے زائد ہیں نے اپنی والدہ کی وفات کے فوراً بعد عدالت سے رجوع کیا کہ ان کو ان کی والدہ محترمہ کا حصہ دیا جائے اور اپنے ماموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ حتیٰ کہ وہ ایک دفعہ بھی اپنے ماموں کے پاس نہیں گئے۔ ان کا ماموں 2013 میں فوت ہو گیا ہے۔ اس بارے میں‌ راہنمائی درکار ہے کہ کیا انہیں‌ مذکورہ وراثت سے حصہ دیا جائے گا؟

  • سائل: محمد مشتاق مدنی مقام: قصور
  • تاریخ اشاعت: 21 اپریل 2016ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ

اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔

النساء، 4: 12

اگر مورث کی اولاد موجود ہو تو اس کی بیوی کو خاوند کے ترکہ سے آٹھواں (1/8) حصہ ملتا ہے۔ مسئلہ ہٰذا میں چونکہ بیوی اور بچوں کے علاوہ کوئی اور وارث موجود نہیں ہے اس لیے بیوی کو حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ اولاد میں تقسیم کیا جائے گا۔ اور اس کی تقسیم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق ہوگی:

يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.

اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔

النساء، 4: 11

مذکورہ شخص کی وفات کے بعد اس کی بیوی اور اولاد میں وارثت کی تقسیم یہ ہونی چاہیے تھی کہ بیوی کو کل قابلِ تقسیم ترکہ کا  آٹھواں (1/8) حصہ اور باقی بچنے ترکہ کے تین (3) برابر حصے کر کے بنا کر دو (2) حصے بیٹے کو اور ایک (1) حصہ بیٹی کو ملنا چاہیے تھا۔

اسی طرح جب یہ بیوہ فوت ہوئی تو اس وقت اس کے ورثاء میں ایک بیٹا اور بیٹی تھے ۔ وقتِ وفات جو کچھ بھی مرحومہ کے نام تھا وہ بیٹے اور بیٹی میں مذکورہ نسبت سے تقسیم ہونا تھا جو کہ انہوں نے تقسیم نہیں کیا۔ اب اگر بیٹی کی اولاد اپنے حصے کا مطالبہ کر رہی ہے تو ان کا مطالبہ درست ہے۔ شرعاً ان کی والدہ کا حصہ انہیں نہیں دیا گیا تو انہیں ان کا حق ملنا چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری