سوال نمبر:3611
السلام علیکم! سر میں سعودی عرب میں ملازمت کر رہا ہوں اور ایک سوال آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ معاملہ یہ ہے کہ میں نے ایک سعودی بینک سے قرض لینا چاہا، بینک کے منتظمین کے مطابق ان کا بینک اسلامی اصولوں کے مطابق بینکنگ کر رہا ہے اور سعودی علماء کونسل کے تین ممبران اس سلسلے میں راہنمائی کرتے ہیں جنہوں نے بینک کے طریقِ کاروبار کو جائز کہا ہے۔ ان کے بینک کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب کوئی ان سے قرض مانگتا ہے تو بینک پیسوں یا رقم کی صورت میں قرض دینے کی بجائے مطلوبہ مالیت کی کوئی مادی شے درخواست دہندہ کو دے دیتا ہے تاکہ وہ بیچ کر رقم حاصل کر لے۔ کچھ بینک اپنے شئرز درخوست دہندہ کو دے دیتے ہیں۔
جب میں نے بینک سے پوچھا کہ اگر میں ان سے پچاس ہزار (50000) سعودی ریال دو سال کے لیے قرض لوں تو مجھے واپس کتنے کرنے ہوں گے؟ انہوں نے بتایا کہ مجھے پچپن ہزار (55000) لوٹانے ہوں گے۔ ان کے مطابق پانچ ہزار (5000) ان کی بینک فیس ہے۔
راہنمائی کیجیے کہ کیا اس طرح کی بینکنگ جائز ہے؟ کیا ایسے بینکوں سے قرض لینا جائز ہے؟
- سائل: محمد تنویرمقام: سعودی عرب
- تاریخ اشاعت: 18 مئی 2015ء
جواب:
اگر بینک آپ کو کوئی شے مثلاً گاڑی، پلاٹ یا کوئی بھی شے دیتا ہے، آپ اور بینک طے
کر لیتے ہیں کہ اس شے کی مالیت پچپن ہزار (55000) ریال ہے۔ گویا بینک نے آپ کو پچپن
ہزار کا قرض دیا اور طے ہوگیا کہ آپ مقررہ مدت کے بعد بھی بینک کو پچپن ہزار (55000)
ریال ہی لوٹائیں گے۔ مذکورہ شے بیچ کر آپ اپنی فوری ضرورت کو پورا کرلیتے ہیں۔ وہ شے
پچاس ہزار (50000) ریال کی بکے یا کمی پیشی کے ساتھ، آپ بینک کو پچپن ہزار (55000)
ریال ہی لوٹائیں گے۔ شرعاً یہ طریقہ جائز ہے۔
اس کے برعکس اگر بینک آپ کو پچاس ہزار (50000) نقد دے اور مقررہ مدت میں اضافے کی
شرط کے ساتھ اس کی واپسی کا مطالبہ کرے تو یہ سراسر سود ہے، جس کی شرعاً اجازت نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔