کیا رقم کی ادائیگی کے لیے عصر حاضر کے مطابق رقم کی قدر کو دیکھا جائے گا؟


سوال نمبر:2153
السلام و عیکم میرا سوال قرض سے متعلق ہے میں نے 2002ء میں اپنے کزن کے پاس سونا رکھوا کر قرض 60000 روپے قرض لیا۔ سونے کی قیمت اُس وقت 75000 روپے بنتی تھی اور قرض کی واپسی کے لیے ایک سال کا وقت طے پایا تھا، ساتھ ہی یہ شرط بھی تھی کہ اگر میں قرض کی رقم واپس نہ دے سکوں تو سال کے بعد سونا بیچ کر وہ اپنی رقم کاٹ لے اور باقی رقم مجھے لوٹا دے۔ پھر میں وقت مقرر تک قرض ادا نہ کر سکا۔ مگر اُس نے سونا نہ بیچا اور نہ ہی مجھے کوئی باقی رقم دی۔ آج 2012ء میں دس سال بعد بھی نہ تو سونا بکا اور نہ ہی مجھے کوئی رقم دی گئی۔ اب وہ حساب کرنا چاہتا ہے مگر 2003ء والے ریٹ پر۔ قرآن کریم و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق بتائیں کہ کیا یہ درست فیصلہ ہے؟ اس کے بارے میں تفصیلا جواب دیں۔ تاکہ کوئی شک کی گنجائش نہ رہے۔ شکریہ والسلام

  • سائل: ندیم شہزادمقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 28 ستمبر 2012ء

زمرہ: قرض  |  معاملات

جواب:

جب یہ طے پا گیا تھا کہ سال بعد قرض کی ادائیگی نہ ہوئی تو سونا بیچ کر اپنی مطلوبہ رقم کاٹ کر باقی آپ کو دے دی جائے تو اسی معاہدے کے مطابق آپ کے کزن کی ذمہ داری تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کا قصور ہے اگر طے پایا تھا۔ لہذا آج بھی وہ 60000 روپے کا ہی حقدار ہے، لہذا وہ سونا خود بیچ کر یا پھر آپ کے حوالے کر دے آپ اس کو 60000 روپے دے دیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری