دین کے کتنے درجے ہیں؟


سوال نمبر:207
دین کے کتنے درجے ہیں؟

  • تاریخ اشاعت: 22 جنوری 2011ء

زمرہ: ایمانیات

جواب:

دین کے تین درجے ہیں :

1۔ ایمان 2۔ اسلام 3۔ احسان

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک روز ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہماری محفل میں آیا۔ اس کے کپڑے نہایت سفید، بال گہرے سیاہ تھے، اس پر سفر کے کچھ اثرات نمایاں نہ تھے اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہیں تھا۔ بالآخر وہ شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھٹنے سے گھٹنے ملا کر بیٹھ گیا اور اس نے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھ لیے اور عرض کیا :

يَا مُحَمَّدُ! أخْبِرْنِيْ عَنِ الْإِسْلَامِ؟

’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے بتائیں اسلام کیا ہے؟ ‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَلإِسْلَامُ أنْ تَشْهَدَ أنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ، وَأنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ، وَتُقِيْمَ الصَّلاَة، وَتُؤْتِيَ الزَّکَاةَ، وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيْلاً.

’’(اسلام یہ ہے کہ) تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور یہ کہ تُو نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرے۔‘‘

اس جواب پر اس شخص نے عرض کیا :

صَدَقْتَ.

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا۔‘‘

اس نے دوسرا سوال کرتے ہوئے عرض کیا :

أخْبِرْنِی عَنِ الايمان.

’’(یا رسول اﷲ!) مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے؟‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا :

أنْ تُؤْمِنَ بِاﷲِ، وَمَلَائِکَتِهِ، وَکُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ.

’’(ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مقدر مانے۔‘‘

اِس پر اُس اجنبی شخص نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق فرمائی اور عرض کیا :

أخْبِرْنِيْ عَنِ الْإِحْسَانِ؟

’’(یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) مجھے احسان کے بارے میں بتائیے؟‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أنْ تَعْبُدَ اﷲَ کَأنَّکَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ.

’’(احسان یہ ہے کہ) تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (یہ مقام نہ پانے کے سبب) اسے نہیں دیکھ رہا تو (کم ازکم یہ یقین ہی پیدا کرلے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘

اب تیسری بار اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق فرمائی۔ اس شخص کے جانے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : اے عمر! جانتے ہو یہ سوال کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا : یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔

یہ حدیث مبارکہ دین کے لفظاً اور معناً وہ تین درجات بیان کرتی ہے، جن سے دین مکمل ہوتا ہے۔

 1. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الايمان والاسلام والاحسان، 1 : 37، 38، رقم : 8
2. بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب سوال جبريل، 1 : 27، 28، رقم : 50

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔