ہمارے ہاں انشورنس کا کاروبار ہوتا ہے، کیا یہ شرعی لحاظ سے جائز ہے؟
جواب:
بیمہ یا انشورنس کروانا جائز ہے کیونکہ شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ اس میں معاشی تحفظ ہے۔ یونہی انشورنس کمپنی میں ملازمت بھی جائز ہے، کیونکہ ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
اپنی زندگی کا بیمہ یا انشورنس پالیسی ایک مفید چیز ہے، جس کے ذریعے ایک انسان خاص رقم خاص مدت تک ادا کرتا ہے۔ اگر اس مدت تک زندہ رہے تو رقم کے ساتھ اضافی رقم بھی اسے ادا کر دی جاتی ہے اور اگر وہ پوری اقساط جمع کروانے سے پہلے فوت ہو جاتا ہے تو مقررہ رقم اس کے ورثاء کو مل جاتی ہے۔ جس سے بہت سے معاشی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ اگر بیمہ کمپنیاں صنعت یا غیر سودی تجارت میں یہ رقم لگائیں تو اس کے جواز میں کلام نہیں۔ مثلاً مضاربہ و مشارکہ وغیرہ میں۔
اگر بد قسمتی سے یہ پالیسی ہولڈرز سے ملنے والی رقوم سودی کاروبار میں لگائیں یا سود پر قرض دیں تو یہ عمل گو اشد حرام اور گناہ کبیرہ ہے مگر پالیسی ہولڈرز کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ لہٰذا ان کے لئے اصل معاہدہ کے مطابق کاروبار کرنا درست ہے۔ جب تک کوئی غیر شرعی شرط نہ لگائی جائے۔
(منہاج الفتاویٰ، جلد چہارم، صفحہ 116-115، باب پنجم : بیمہ)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔