جواب:
حدیث شریف میں آتا ہے :
لاتبدؤُا اليهود ولا النصاریٰ بالسلام.
یہود و نصارٰی پر سلام کہنے میں پہل نہ کرو۔
اس کی وجہ یہ کہ حدیث پاک میں آتا ہے :
اذا سلم عليکم اليهود فانما يقول احدهم السَّام عليک فقل و عليک. (اوکماقال)
(متفق علیہ)
جب تم کو یہود سلام کرتے ہیں تو وہ کہتے السام علیک۔ وہ یہ لفظ استعمال کرتے تھے اس کا معنی ہے تم جلدی مرجاؤ۔ تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جواب میں تم بھی یہی الفاظ کہو وعلیکم یعنی تم کو بھی ایسا ہی ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر وہ السلام علیکم کہے تو تم بھی وعلیکم السلام کہو اگر وہ السام کہے تو تم جواب میں وعلیکم کہو۔
علماء کرام فرماتے ہیں اگر کوئی مسلمان ایسی جگہ پر کام کرتا ہو یا رہتا ہو جہاں پر وہ لوگ اکثریت میں ہوں تو اگر یہ مسلمان ان کے شر سے بچنے کے لیے ان پر سلام کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر وہ لفظ سلام استعمال کرتا ہے تو جواب بھی سلام سے ملے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ بہرحال اگر وہ پہل کرے تو اچھا ہے اگر مطلقاً بھی سلام کرے تو بعض علماء کے نزدیک فقط مکروہ ہے۔ عرض یہ ہے کہ اسلام سلامتی اور امن کا درس دیتا ہے تو سلام کہنے میں اتنی سختی نہ کی جائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔