Fatwa Online

نظریاتی حملہ کیا ہے اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

سوال نمبر:74

نظریاتی حملہ کیا ہے اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:

  • تاریخ اشاعت: 19 جنوری 2011ء

موضوع:ایمانیات

جواب:
طور پر اسلام سے دور کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ حملہ جھوٹے افکار و نظریات کی مدد سے کیا جا رہا ہے۔ دینی تربیت سے بے بہرہ نوجوان جب کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پہنچ کر مغربی فلسفوں اور نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ دینی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر مادہ پرستانہ نظریات کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان بالغیب، آخرت، نبوت اور رسالت کے بارے میں ان کے عقائد کمزور پڑنے لگتے ہے۔ اس طرح نا پختہ ذہن رکھنے والے نوجوان نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات پر کان نہیں دھرتے بلکہ وہ اسلام کے تمام تصورات کو بھی نا قابل عمل سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس نظریاتی حملہ کے نتیجے میں رونما ہو رہا ہے جو اسلام دشمن قوتیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اہل اسلام کے قلب و باطن پر کر رہی ہیں۔

نظریاتی حملے کا واحد تدارک یہ ہے کہ اسلام کو روایتی انداز کی بجائے سائنسی انداز اور مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کر کے نوجوان نسل کو یہ یقین دلایا جائے کہ فکری، نظریاتی اور استدلالی اعتبار سے اسلام سے بہتر دنیا کا کوئی نظام نہیں ہے۔ انہیں یہ باور کرایا جائے کہ جدید فکر اور نظریے مادیت سے جنم لیتے ہیں جبکہ اسلامی نظریے اور فکر کا سر چشمہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ اور قرآن حکیم کی بنیادی و اساسی تعلیمات ہیں۔ لہٰذا موجودہ نسل کو محض فتوؤں کے زور پر دوزخ کی آگ کے خوف سے اسلام کی طرف بلانے کی بجائے ان کے سامنے ایمان اور اسلام کو اس انداز سے پیش کیا جائے کہ وہ جان لیں کہ تمام مسائل کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو پھر نوجوانوں کے عقائد کی بنیادیں متزلزل ہونے کی بجائے مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائیں گی۔ کیونکہ بقول اقبال :

نہیں ہے نا امید اقبال (رح) اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اسلام کا حقیقت پسندانہ مطالعہ تعلیمات اسلام پر عمل ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے اس حملے کے منفی اثرات کی روک تھام میں مدد ملتی ہے جو انسانی شعور کے راستے سے امت مسلمہ کے ایمان پر وارد ہوتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Print Date : 27 November, 2024 08:58:24 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/74/