Fatwa Online

طلاق کے وسوسوں سے کیسے بچا جائے؟

سوال نمبر:6191

السلام علیکم مفتی صاحب! براہِ کرم ان سوالات کے جوابات ارسال فرما دیں: (1) جب سے طلاق کے کنایہ الفاظ کے بارے میں پڑھا ہے تب سے ہر بات جو میں بیوی سے کرتا ہوں اس سے مجھے طلاق کا وسوسہ لگا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر بیوی پوچھے کہ میں امی کے گھر چلی جاؤں تو جواب میں ہاں کہتے ہوئے مجھے طلاق کا وسوسہ آتا ہے۔ اکثر خیال گزرتا ہے دماغ میں کہ پتہ نہیں ہمارا نکاح ابھی تک قائم ہے بھی یا نہیں؟ میرا دل مطمئن ہے کہ ہاں نکاح قائم ہے۔ اس سلسلے میں مجھے کیا کرنا چاہیے کہ ان وساوس سے چھٹکارا حاصل کر سکوں۔ (2) بیوی کے علاوہ کسی کو بھی شہوت کے ساتھ نہیں چھوسکتے لیکن مجھے محرم رشتوں جیسے بہن، بیٹی وغیرہ سے ہاتھ ملاتے وقت شہوت کا وسوسہ آتا ہے، شہوت نہیں ہوتی صرف وسوسہ یعنی خیال گزرتا ہے کہ شہوت نہیں ہونی چاہیے۔ (3) اس سب سے بچنے کی بہت کوشش کرتا ہوں لیکن بہت سارے معاملات میں وسوسوں کا بری طرح شکار ہوں۔ محرم رشتوں کو ہاتھ ملاتے وقت شہوت کے وسوسے سے بچنے کی وجہ سے کبھی کبھی اپنی بیوی سے کوئی چیز لیتے یا دیتے وقت ہاتھ بیوی کے ہاتھ سے لگتا ہے تو شہوت سے بچنے کا خیال گزرتا ہے جیسا کہ بہن، بیٹی کے لیے ہونا چاہئے نہ کی بیوی کے لیے۔ یہ عمل اور خیالات خود بخود آتے ہیں۔ بغیر ارادے اور نیت کے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں ، میں بہت سخت پریشان ہوں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: پریشان خان

  • مقام: کے پی کے
  • تاریخ اشاعت: 29 مئی 2024ء

موضوع:بغیر زمرہ

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

(1) طلاق کا وسوسہ یا خیال آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی جیسا کہ:

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اگر دل میں طلاق کا خیال آیا یا دل میں طلاق دینے کا ارادہ کیا (اور زبان سے کچھ نہ کہا) تو طلاق نہیں ہوئی، اس قول کو امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اور اس سے پہلے جو حدیث بیان کی وہ یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ.

’’ﷲ تعالیٰ نے میری اُمت کے اُن خیالات کو معاف فرما دیا ہے جو دلوں میں پیدا ہوتے ہیں جب تک ان کے مطابق عمل یا کلام نہ کریں۔‘‘

البخاري، الصحیح، كتاب الطلاق، باب إذا قال لامرأته وهو مكره هذه أختي فلا شيء عليه، 5: 2020، الرقم: 4968، بیروت: دار ابن کثیر الیمامة

لہذا آپ اپنے دل کو مطمئن رکھیں اس طرح محض وسوسوں اور خیالات سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ جب آپ کو یہ وسوسہ آئے تو ’’تعوّذ‘‘ أعوذ باللّٰه من الشیطٰن الرجیم پڑھ لیا کریں ان شاءاللہ وساوس سے چھٹکارا مل جائے گا۔

(2) بہن، بیٹی یا دیگر محارم سے ہاتھ ملانا فرض یا واجب نہیں ہے، لہذا آپ ان سے ہاتھ ملانا ہی چھوڑ دیں تاکہ وسوسہ پیدا ہی نہ ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ، فَإِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِينَةٌ، وَإِنَّ الكَذِبَ رِيبَةٌ.

’’جس چیز میں تمہیں شبہ ہو، اسے چھوڑ دو اور اس چیز کو اختیار کرو جس میں کوئی شبہ نہ ہو کیونکہ سچ میں سکون و اطمینان ہوتا ہے، اور جھوٹ میں شک و بے چینی پائی جاتی ہے۔‘‘

الترمذي، السنن، كتاب صفة القيامة والرقائق والورع، باب: 60، 4: 668، الرقم: 2518، بيروت: دار إحياء التراث العربي

لہذا محرم عورتوں سے ہاتھ ملاتے وقت شہوت ہوتی ہے یا نہیں آپ ان سے ہاتھ ملانا چھوڑ دیں تاکہ شک و شبہ سے بھی بچہ جا سکے اور وسوسہ سے بھی چھٹکارا حاصل ہو جائے۔

(3) خیالات اور وساوس کا آنا بری بات نہیں ہے لیکن ان کو طول دینا اور مزید دیر تک انہی میں تصور کو جمائے رکھنا جائز نہیں ہے۔ آپ اپنے آپ کو شروع میں اس بات پر قائل کریں کہ یہ وساوس شیطانی ہیں میں نے ان سے بچنا ہے۔ اور اپنے آپ کو مصروف رکھیں، ورزش اور سیر کرنے کا معمول بنائیں ان شاء اللہ چھٹکارا مل جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 14 July, 2025 04:33:58 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6191/