جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
(1) طلاق کا وسوسہ یا خیال آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی جیسا کہ:
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اگر دل میں طلاق کا خیال آیا یا دل میں طلاق دینے کا ارادہ کیا (اور زبان سے کچھ نہ کہا) تو طلاق نہیں ہوئی، اس قول کو امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اور اس سے پہلے جو حدیث بیان کی وہ یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ.
’’ﷲ تعالیٰ نے میری اُمت کے اُن خیالات کو معاف فرما دیا ہے جو دلوں میں پیدا ہوتے ہیں جب تک ان کے مطابق عمل یا کلام نہ کریں۔‘‘
البخاري، الصحیح، كتاب الطلاق، باب إذا قال لامرأته وهو مكره هذه أختي فلا شيء عليه، 5: 2020، الرقم: 4968، بیروت: دار ابن کثیر الیمامة
لہذا آپ اپنے دل کو مطمئن رکھیں اس طرح محض وسوسوں اور خیالات سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ جب آپ کو یہ وسوسہ آئے تو ’’تعوّذ‘‘ أعوذ باللّٰه من الشیطٰن الرجیم پڑھ لیا کریں ان شاءاللہ وساوس سے چھٹکارا مل جائے گا۔
(2) بہن، بیٹی یا دیگر محارم سے ہاتھ ملانا فرض یا واجب نہیں ہے، لہذا آپ ان سے ہاتھ ملانا ہی چھوڑ دیں تاکہ وسوسہ پیدا ہی نہ ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ، فَإِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِينَةٌ، وَإِنَّ الكَذِبَ رِيبَةٌ.
’’جس چیز میں تمہیں شبہ ہو، اسے چھوڑ دو اور اس چیز کو اختیار کرو جس میں کوئی شبہ نہ ہو کیونکہ سچ میں سکون و اطمینان ہوتا ہے، اور جھوٹ میں شک و بے چینی پائی جاتی ہے۔‘‘
الترمذي، السنن، كتاب صفة القيامة والرقائق والورع، باب: 60، 4: 668، الرقم: 2518، بيروت: دار إحياء التراث العربي
لہذا محرم عورتوں سے ہاتھ ملاتے وقت شہوت ہوتی ہے یا نہیں آپ ان سے ہاتھ ملانا چھوڑ دیں تاکہ شک و شبہ سے بھی بچہ جا سکے اور وسوسہ سے بھی چھٹکارا حاصل ہو جائے۔
(3) خیالات اور وساوس کا آنا بری بات نہیں ہے لیکن ان کو طول دینا اور مزید دیر تک انہی میں تصور کو جمائے رکھنا جائز نہیں ہے۔ آپ اپنے آپ کو شروع میں اس بات پر قائل کریں کہ یہ وساوس شیطانی ہیں میں نے ان سے بچنا ہے۔ اور اپنے آپ کو مصروف رکھیں، ورزش اور سیر کرنے کا معمول بنائیں ان شاء اللہ چھٹکارا مل جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔