جواب:
سائل کے والدِ محترم نے اپنی زندگی میں جو مکان اپنے بڑے بیٹے کو رہنے کیلئے دیا تھا، اگر انہوں نے گواہوں کی موجودگی میں وہ مکان بڑے بیٹے کو ہبہ کر دیا تھا اور قانونی کاروائی کے بعد اس کا قبضہ بھی دے دیا تھا تو وہ مکان اسی بیٹے کی ملکیت ہے۔ اس مکان کو سائل کے والدِ محترم کی وراثت میں شمار نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی یہ ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ:
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالعُمْرَى، أَنَّهَا لِمَنْ وُهِبَتْ لَهُ.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عمریٰ (زندگی کے لیے ہبہ) کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ یہ اسی کا ہے جس کو ہبہ کیا گیا ہے۔‘‘
البخاري، الصحیح، كتاب: الهبة وفضلها، باب: ما قيل في العمرى والرقبى، 2: 925، الرقم: 24٨2، بیروت: دار ابن کثیر الیمامة
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَيُّمَا رَجُلٍ أُعْمِرَ عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ، فَإِنَّهَا لِلَّذِي أُعْطِيَهَا، لَا تَرْجِعُ إِلَى الَّذِي أَعْطَاهَا، لِأَنَّهُ أَعْطَى عَطَاءً وَقَعَتْ فِيهِ الْمَوَارِيثُ.
’’جس شخص کو او ر اس کے وارثوں کو تاحیات کوئی چیز دی گئی سو یہ چیز اسی کے لیے ہے جس کو دی گئی ہے وہ چیز دینے والے کی طرف نہیں لوٹے گی کیونکہ اس نے ایسی چیز دی ہے جس میں وراثت جاری ہوگی۔‘‘
مسلم، الصحیح، كتاب الهبات، باب العمرى، 3: 1245، الرقم: 1625، بیروت: دار احیاء التراث العربي
اس لیے بڑے بیٹے کو ہبہ کیے گئے مکان کے علاوہ جو کچھ سائل کے والدِ مرحوم کی ملکیت تھا وہ وراثت کے شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔ سائل کی والدہ محترمہ یا کوئی دوسرا وارث اسے اپنی مرضی سے تقسیم نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ عملِ حرام کا مرتکب اور خدا کی عدالت میں جوبدہ ہوگا۔
سائل کے والدِ مرحوم کی کل قابلِ تقسیم جائیداد سے بیوہ کو آٹھواں حصہ ملے گا۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ ؕ
اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔
النِّسَآء، 4: 12
مرحوم کی بیوہ کو اس کا متعین کردہ آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی جائیداد کے برابر چھ حصے بنا کر ہر بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے گا یعنی ہر بیٹے کو بیٹی سے دوگنا حصہ دیا جائے گا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ۚ
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔
النِّسَآء، 4: 11
مذکورہ حصے جائیداد کی موجودہ قیمت کے مطابق تقسیم کیئے جائیں گے۔ وراثت کی تقسیم سائل کے والد کی وفات کے فوری بعد ضروری تھی، مگر بوجوہ ایسا نہیں کیا جاسکا اور تاخیر ہوئی۔ اگر ورثاء کو اُن کے حصے وقت پر مل جاتے تو ورثاء اُن سے فائدہ اٹھا سکتے تھے، جس سے وہ محروم رہے۔ مرحوم کی وراثت ہر اُس وارث کو ملے گی جو مرحوم کی وفات کے وقت زندہ و موجود تھا۔ اگر بعد میں کسی وارث کا جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ مرحوم کی دو بیٹیوں کا وصال ہوگیا ہے تو اُن کا حصہ اُن کی اولاد یا دیگر ورثاء کو مل جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔