Fatwa Online

ایقان سے کیا مراد ہے؟

سوال نمبر:57

ایقان سے کیا مراد ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:

  • تاریخ اشاعت: 19 جنوری 2011ء

موضوع:عقائد

جواب:

ایمان کا تیسرا درجہ ایقان ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بابت بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے بارگاہ رب العزت میں یہ درخواست پیش کی :

رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى.

البقرة، 2 : 260

’’میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ فرماتا ہے۔‘‘

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام پہلے سے نہیں جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے؟ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس سے پہلے ان کا ایمان، ایمان بالغیب اور عرفان بالشواہد کے درجے میں تھا اور اب وہ مشاہدے کے ذریعے ایمان کے آخری درجے یعنی ایقان بالمشاہدہ تک پہنچنا چاہتے تھے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سوال کیا :

أَوَلَمْ تُؤْمِن.

’’کیا تم یقین نہیں رکھتے؟‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا:

بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي.

البقرة، 2 : 260

’’کیوں نہیں! (یقین رکھتا ہوں) لیکن (چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کس مقصد کے تحت یہ سوال کر رہے ہیں مگر یہ مکالمہ انسانوں کو تعلیم دینے کی غرض سے تھا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا :

فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌo

البقرة، 2 : 260

’’سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے، اور جان لو کہ یقیناً اللہ بڑا غالب حکمت والا ہے۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو علم و عرفان تو پہلے سے تھا مگر وہ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ کر حق الیقین حاصل کرنا چاہتے تھے جو اللہ رب العزت نے ان کو عطا کر دیا۔ قدرت کی ان تمام نشانیوں کو دکھانے کا مقصد انہیں درجہ ایقان تک پہنچانا تھا جو ایمان اور یقین کا آخری درجہ ہے۔

اس کی مثال ایسے ہے کہ ایک شخص کسی جانور کو ذبح کر کے آیا ہو اور دوسرا کسی انسان کو قتل کر کے آیا ہو، کسی راہگیر نے قتل ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دہشت زدہ ہو کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا تو حقیقت حال سے بے خبر لوگ جانور ذبح کرنے والے کو اس کے کپڑوں پر پڑے خون کے چھینٹے دیکھ کر قاتل سمجھ بیٹھے۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص جو عین موقع واردات پر موجود تھا اور جس نے دن کے اجالے میں اپنی آنکھوں سے قتل کا معاملہ دیکھا اور وہ قاتل و مقتول کو اچھی طرح جانتا اور پہچانتا بھی ہے یہ شخص اس معاملے میں صاحبِ ایقان ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Print Date : 27 November, 2024 09:08:40 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/57/