جواب:
بیعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’بیع‘ سے نکلا ہے، جس کا لفظی معنیٰ سودا کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں کسی مقدس ہستی یا صالح بزرگ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرنے کا نام بیعت ہے۔ یہ ایک دوطرفہ معاہدہ ہوتا ہے جس میں بیعت لینے والا تمام نیک و جائز امور میں راہنمائی کا وعدہ کرتا ہے اور بیعت کرنے والا نیک و جائز امور میں اس کی اطاعت اور پیروی کا اقرار کرتا ہے۔ قرآن و حدیث میں نہ صرف بیعت کی کئی مثالیں موجود ہیں بلکہ عامۃ الناس کو رشد و ہدایت کے لیے راہبر کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُرْشِدًا.
جسے اﷲ ہدایت فرما دے سو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ اس کے لیے کوئی ولی مرشد (یعنی راہ دکھانے والا مددگار) نہیں پائیں گے۔
الکهف، 18: 17
اس عامۃ الناس کو راہِ حق کے لیے کسی ’ہدایت یافتہ‘ ولی مرشد کی روہنمائی درکار ہوتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جسے راہنمائی کے لیے چنا جا رہا ہے وہ خود عالمِ باعمل اور صحیح العقیدہ ہو تاکہ بیعت کا اصل مقصد حاصل ہوسکے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابیات رضوان اللہ تعالیٰ علیھن اجمعین سے بیعت لی تو اس کا تذکرہ قرآنِ مجید نے ان الفاظ میں کیا:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.
اے نبی! جب آپ کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گی (یعنی اپنے شوہر کو دھوکہ دیتے ہوئے کسی غیر کے بچے کو اپنے پیٹ سے جنا ہوا نہیں بتائیں گی) اور (کسی بھی) امرِ شریعت میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی، تو آپ اُن سے بیعت لے لیا کریں اور اُن کے لئے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
الْمُمْتَحِنَة، 60: 12
احادیثِ مبارکہ میں صحابہ کرام سے بیعت لینے کا واقعہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے روایت کیا جو غزوۂ بدر میں شریک تھے اور بیعت عقبہ والوں میں ایک نقیب تھے۔ جب صحابہ کرام رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا:
بَيِعُونِي عَلَی أَنْ لَا تُشْرِکُوا بِاﷲِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ، وَلَا تَتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ، وَلَا تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَی مِنْکُمْ فَأَجْرُهُ عَلَی اﷲِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ کَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اﷲُ فَهُوَ إِلَی اﷲِ إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ۔ فَبَيَعْنَهُ عَلَی ذٰلِک.
مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے، جانتے بوجھتے کسی پر بہتان نہیں باندھو گے اور نیکی کے کاموں میں نافرمانی نہیں کرو گے۔ تم میں سے جس نے یہ عہد پورا کیا تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر اور جو ان میں سے کسی کے اندر مبتلا ہو جائے اور دنیا میں اس کی سزا ملی تو وہ اس کا کفارہ ہو گیا اور جو ان میں سے کسی بات میں پڑا، پھر اللہ نے اس پر پردہ ڈالے رکھا تو وہ اللہ کے سپرد کہ چاہے معاف فرمائے اور چاہے اسے سزا دے۔ ہم نے اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔
حضرت زیاد بن علاقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جریر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ جس روز حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو وہ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا تم پر اللہ سے ڈرنا ضروری ہے جو اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور وقار واطمینان سے رہنا، یہاں تک کہ دوسرا امیر آ جائے جو تمہارے پاس آنے والا ہے۔ پھر فرمایا کہ اپنے امیر سے درگزر کرو کیونکہ وہ درگزر کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ پھر فرمایا اما بعد:
فَإِنِّی أَتَيْتُ النَّبِيَ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قُلْتُ: أُبَيِعُکَ عَلَی الْإِسْلَامِ، فَشَرَطَ عَلَيَّ: (وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ). فَبَيَعْتُهُ عَلَی هَذَا وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَکُمْ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ.
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ مجھے اسلام پر بیعت فرما لیجئے۔ آپ نے مجھ سے ہر مسلمان کا خیر خواہ رہنے کی شرط بھی فرمائی تو میں نے اس بات پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کر لی لہٰذا اس مسجد کے رب کی قسم، میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ پھر دعائے استغفار کی اور اتر آئے۔
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں پر بیعت لینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، یہ سنت آج تک جاری ہے۔ صلحائے امت عامۃ الناس سے صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے بیعت لیتے ہیں۔لہٰذا کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنا واجب تو نہیں ہے لیکن بیعت کرنے سے مراد یہی ہوتا ہے کہ بندہ کسی کی پیروی کرے یعنی جو شخص اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کو ماننے والا ہو، عوام اس کی پیروی کرے۔ کیونکہ عامۃالنّاس اس قابل نہیں ہوتے کہ قرآن وحدیث اور علوم اسلامیہ میں مہارت رکھتے ہوں۔ اس لیے راہِ حق پر چلنے کے لئے انہیں کسی معتبر ہستی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص خود اس درجہ پر فائز ہو کہ تفہیمِ شریعت میں کسی کی ضرورت محسوس نہ کرے اور شریعت کے علمی اور عملی دونوں میدانوں میں ماہر ہوتو ایسے بندے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ کسی کی بیعت کرے بلکہ وہ اس طبقہ میں شامل ہے جو مذکورہ امور میں عوام کی مدد کرتے ہیں، انہیں حقائق سے آگاہ کرتے ہوئےراہِ حق کی بات بتاتے ہیں۔
اسلام میں عورت کو ایک عزت کا مقام دیا گیاہے۔اس عزت کی حفاظت کی خاطر نہ صرف مردوں بلکہ عورتو ں کو بھی حکم دیا کہ اپنی نگاہوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ.
آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لیے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بے شک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔
النور: 24: 30
اور مزید فرمایا:
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.
اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دو پٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کمسنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنیٰ ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کیے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔
النور: 24: 31-32
سورۃ مومنون میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی صفات کے بیان میں ارشاد فرمایا:
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ. إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ.
اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بے شک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔
المؤمنون، 23: 5-6
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَلِجُوا عَلَی الْمُغِیبَاتِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِکُمْ مَجْرَی الدَّمِ قُلْنَا وَمِنْکَ قَالَ وَمِنِّي وَلَکِنَّ اﷲَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمُ.
جن عورتوں کے خاوند موجود نہ ہوں ان کے پاس نہ جاؤ کیونکہ شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ حضرت جابر فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے لیے بھی ایسا ہی ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے لیے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی اور وہ (میرا ہمزاد) مسلمان ہو گیا۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِيَاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اﷲِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ.
تنہا عورت (نامحرم) کے پاس جانے سے پرہیز کرو۔ انصار سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ یا رسول اﷲ! دیور کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: دیور تو موت ہے۔
یہاں صرف دیور نہیں بلکہ تمام غیر محرم رشتے مثلاً جیٹھ، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھو پھی زاد وغیرہ سب شامل ہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضوان الله علیهم اجمعین عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اﷲِ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً وَاکْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ کَذَا وَکَذَا قَالَ ارْجِعْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تنہائی میں کوئی شخص کسی عورت کے پاس نہ جائے مگر اس کے ذی محرم کے ساتھ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ یا رسول اﷲ! میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے۔ فرمایا کہ غزوہ میں نہ جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہ کی جائے۔
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ غیر محرم مردو زن کا ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ ہونا، تنہائی میں ملنا، بغیر نکاح کے شہوت رانی کرنا اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت کرنا سب غیر شرعی امور ہیں۔لہٰذا جو بھی ان تمام کاموں میں ملوث ہوگا وہ سخت گناہ گار اوربروز قیامت عند اﷲ جوابدہ ہو گا ۔
اب آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔