جواب:
کسی شخص کے بارے میں بغیر کسی ثبوت کے اس طرح کی بات کرنا نہایت درجے کی بداخلاقی ہے۔ عزیز مصر کی بیوی (زلیخا) کی جگہ کوئی اور عورت بھی ہوتی تو اس پس منظر میں اس کا پھسل جانا، غلط سوچنا عین ممکن تھا اور اس حرکت پر اس کو بازاری، فاحشہ عورت کہنا، جیسا کہ زمانہ حال میں بعض لوگوں کا وطیرہ بن گیا ہے، غیر مناسب ہے جبکہ ائمہ دین نے اس بی بی کے متعلق محتاط انداز میں لکھا ہے۔ ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی، تفسیر قرطبی میں بیان کرتے ہیں:
فَزَوَّجَ الْمَلِکُ یُوسُفَ رَاعِیلَ امْرَأَةَ الْعَزِیزِ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْهَا قَالَ: أَلَیْسَ هَذَا خَیْرًا مِمَّا کُنْتِ تُرِیدِینَ؟ فَقَالَتْ: أَیُّهَا الصِّدِّیقُ لَا تَلُمْنِی، فَإِنِّی کُنْتُ امْرَأَةً حَسْنَاء َ نَاعِمَةً کَمَا تَرَی، وَکَانَ صَاحِبِی لَا یَأْتِی النِّسَائَ، وَکُنْتَ کَمَا جَعَلَکَ اللهُ مِنَ الْحُسْنِ فَغَلَبَتْنِی نَفْسِی فَوَجَدَهَا یُوسُفُ عَذْرَاءَ فَأَصَابَهَا فَوَلَدَتْ لَهُ رَجُلَیْنِ إِفْرَاثِیمَ بْنَ یُوسُفَ، وَمَنْشَا بْنَ یُوسُفَ...الخ
زلیخا کے خاوند قطفین (عزیز کی وفات کے بعد) مصر کے بادشاہ نے زلیخا (راعیل) کا نکاح یوسف علیہ السلام سے کردیا۔ جب آپ زلیخا کے پاس تشریف لائے تو فرمایا کیا یہ اس سے بہتر نہیں، جو تو چاہتی تھی؟ وہ کہنے لگی: اے سچے (یوسف) مجھے ملامت نہ کریں۔ میں حسین و جمیل نازوں میں پلی عورت تھی جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں اور میرا خاوند عورتوں کے پاس نہیں آتا تھا (نامرد تھا)۔ جیسا کہ اﷲ نے آپ کو حسن دیا تھا۔ میرا نفس مجھ پر غالب آگیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے (واقعی) اس بی بی کو کنواری پایا۔ اس سے قربت کی، آپ کے اس سے دو بیٹے افراہیم اور منشاء پیدا ہوئے۔
قرطبي،الجامع الاحکام القرآن، 9: 213، القاهرة: دار الشعب
امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں:
أَنَّ یُوسُفَ عَلَیْهِ السَّلَامُ کَانَ فِی غَایَةِ الْجَمَالِ وَالْحُسْنِ، فَلَمَّا رَأَتْهُ الْمَرْأَةُ طَمِعَتْ فِیهِ وَیُقَالُ أَیْضًا إِنَّ زَوْجَهَا کَانَ عَاجِزًا.
یوسف حد درجہ حسین و جمیل تھے۔ جب اس بی بی نے آپ کو دیکھا تو آس لگا بیٹھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا خاوند نامرد تھا۔
الرازي، تفسیر الکبیر، 18: 90، بیروت: دارالکتب العلیة
حافظ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں:
وَقِيلَ: إِنَّهُ لَمَّا مَاتَ زَوَّجَهُ امْرَأَتَهُ زَلِيخَا فَوَجَدَهَا عَذْرَاءَ؛ لِأَنَّ زَوْجَهَا كَانَ لَا يَأْتِي النِّسَاءَ فَوَلَدَتْ لِيُوسُفَ علیہ السلام رَجُلَيْنِ، وَهَمَا أَفْرَاثِيمُ، وَمَنْشَا.
اور یہ بھی کہا گیا ہےکہ جب اسکا شوہر فوت ہوا تو بادشاہ نے حضرت یوسف کی شادی (عزیز مصر)کی بیوی زلیخا سے کروا دی اور یوسفؑ سلام نے انکو کنوارا پایا کیونکہ انکا شوہر عورتوں کی طرف نہیں آتا تھا پس (زلیخا نے) حضرت یوسف علیہ السلام کے دو بچوں کو جنم دیا اور وہ دونوں افراثیم/افرائیم اور منشا/منسی/منسا ہیں۔
ابن كثير، البداية والنهاية، 1: 210، بيروت: مكتبة المعارف
زلیخا کا ارادہ یقینا غلط کاری کا تھا لیکن وہ اس میں ذرا برابر کامیاب نہ ہوئی پس جتنا فعل اس سے سرزد ہوا، وہ قرآن میں مذکور ہے کہ اس نے آنجناب سے دھمکی آمیز دباؤ کے ساتھ مطالبہ گناہ کیا جسے حضرت یوسف علیہ السلام نے نبوی اخلاقی جرات کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَo
(یوسف علیہ السلام نے انکار کر دیا) اور بے شک اس (زلیخا) نے (تو) ان کا ارادہ کر (ہی) لیا تھا، (شاید) وہ بھی اس کا قصد کر لیتے اگر انہوں نے اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھا ہوتا۔ اس طرح (اس لیے کیا گیا) کہ ہم ان سے تکلیف اور بے حیائی (دونوں) کو دور رکھیں، بے شک وہ ہمارے چنے ہوئے (برگزیدہ) بندوں میں سے تھے۔
یوسف، 12: 24
چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ''برہان رب'' دیکھنے کی وجہ سے برائی کا ارادہ ہی نہ فرمایا اور عورت نے گو برائی کا ارادہ کیا جو برا تھا مگر اس برائی سے تو محفوظ رہی جو کرنا چاہتی تھی۔ ارادہء گناہ سے گناہ لکھا نہیں جاتا جب تک عمل نہ کرے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَo
جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لیے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں، اور جو کوئی ایک گناہ لائے گا تو اس کو اس جیسے ایک (گناہ) کے سوا سزا نہیں دی جائے گی اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گے۔
انعام، 6: 160
احادیث مبارکہ میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَالسَّيِّئَةُ بِمِثْلِهَا إِلَّا أَنْ يَتَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْهَا.
ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے ستر گنا تک ہے اور برائی کا اسی کے برابر ہےاور چاہے تو اللہ تعالیٰ اس سے بھی در گزر فرمائے۔
بخاري، الصحیح، كتاب الإيمان، باب حسن إسلام المرء، 1: 24، رقم: 41، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے) فرماتا ہے کہ:
إِذَا هَمَّ عَبْدِي بِسَيِّئَةٍ فَلَا تَكْتُبُوهَا عَلَيْهِ، فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا سَيِّئَةً، وَإِذَا هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا فَاكْتُبُوهَا حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا عَشْرًا.
جب میرا بندہ کسی گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو اس کے نامہ اعمال میں مت لکھو اگر وہ اس پر عمل کرے تو ایک گناہ لکھ دو اور اگر وہ نیکی کا ارادہ کرے اور اس نیکی کو نہ کرے تو اس کی ایک نیکی لکھ دو اور اگر اس کے مطابق عمل کرے تو دس نیکیاں لکھ دو۔
مسلم، الصحیح، كتاب الإيمان، باب إذا هم العبد بحسنة كتبت وإذا هم بسيئة لم تكتب، 1: 117، رقم: 128، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
یہ ہے شرعی فرمان کہ گناہ کے ارادے سے گناہ لکھا نہیں جاتا۔ زلیخا نے بے شک ارادہ گناہ کیا مگر گناہ سرزد نہ ہونے کی وجہ سے گناہ نہ لکھا گیا۔ جب اﷲ کے ہاں اس کا گناہ نہیں لکھا گیا پھر کون ہے جو اپنی طرف سے بلا دلیل شرعی اس بی بی کو معاذ اﷲ فاحشہ اور بازاری عورت کہے؟ خوف خدا کریں۔ اگر ایسی باتوں پر ایسے حکم لگنے لگیں تو چند مستثنیات کے سوا ہر گھر پر یہی حکم لگے گا۔ بات صرف بی بی زلیخا تک محدود نہیں رہے گی۔ ہمیں اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنا چاہیے۔ بقول بہادر شاہ ظفر مرحوم:
تھی نہ اپنے جو عیبوں کی ہم کو خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑ گئی جب گناہوں پہ اپنے نظر
تو جہاں میں کوئی بھی برا نہ رہا
اﷲتعالیٰ ہدایت فرمائے، آمین! ہم نے دلائل سے آپ کے سوال کا جواب دیا ہے کسی کے پاس اس کے خلاف دلیل ہے تو بحوالہ پیش کرے کیونکہ ذاتی خیالات کسی کے اپنے باطن کے آئینہ دار تو ہو سکتے ہیں لیکن شرعی فیصلے نہیں ہو سکتے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔