Fatwa Online

کیا جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں مقتول پولیس کے جوان بھی شہید ہیں؟

سوال نمبر:5094

السلام علیکم! کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی کرتے ہوئے اپنی جان قربان کرتے ہیں کبھی وہ منشیات فروشوں، ڈکیتوں،چوروں، جواریوں اور ایسے ہی کچھ جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں قتل ہوجاتے ہیں تو ان کو غسل و کفن دیا جائے گا کہ نہیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد اشفاق اویسی

  • مقام: پولیس لائن، اٹک
  • تاریخ اشاعت: 07 نومبر 2018ء

موضوع:شہید کے احکام

جواب:

شہادت کی دو اقسام ہیں:

1۔ حقیقی شہادت

جو لوگ میدانِ جنگ میں جہاد کرتے ہوئے راہِ خدا میں اپنے جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں‘ انہیں شہدائے حقیقی کہا جاتا ہے جیسے غزاوات میں شہید ہونے والے صحابہ کرام، میدانِ کربلاء کے شہید ہونے والے اصحابِ امام حسین اسی طرح سرحدوں اورملک کی حفاظت کی خاطر شہید ہونے والے افواجِ پاکستان و پولیس کے شہداء وغیرہ۔

2۔ حکمی شہادت

جو لوگ میدان جِہاد میں تو شہید نہیں ہوتے تاہم احادیث میں ان کی موت کو شہادت کی موت قرار دِیا گیا ہے۔ متفرق احادیث میں ایسے شہداء کی چالیس سے زیادہ قسمیں مذکور ہیں۔ ذیل میں چند احادیث پیش کی جارہی ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ: الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِقُ وَصَاحِبُ الْهَدْمِ وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللهِ.

شہداء پانچ طرح کے ہیں: جو طاعون (یا اس جیسی دیگر مہلک بیماری مثلاً کینسر، ٹی بی، چیچک، ایکسیڈنٹ وغیرہ) سے مر گیا، پیٹ کی بیماری (حیضہ، قولنج، ہارٹ اٹیک وغیرہ) سے مر گیا، جو ڈوب کر (دریا میں، جھیل میں، سمندر میں، سیلاب میں، گلیشئرز میں، کنوئیں یا نہر یا ڈیم میں) مر گیا، جو (مکان وغیرہ کی چھت، پہاڑی تودے، گلیشئر، گاڑی کے نیچے، عمارت کے نیچے) دب کر مر گیا اور جو اﷲ کی راہ میں (دشمنوں، باغیوں، ڈاکؤوں، راہزنوں سے لڑتے ہوئے) قتل ہو گیا۔

  1. بخاري، الصحيح، 3: 1041، رقم: 2674، دار ابن کثير اليمامة، بيروت، لبنان
  2. مسلم، الصحيح، 3: 1521، رقم: 1914، دار اِحياء التراث العربي، بيروت، لبنان

ایک اور روایت میں مذکور ہے کہ:

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُظْلَمُ بِمَظْلَمَةٍ فَيُقَاتِلَ فَيُقْتَلَ إِلَّا قُتِلَ شَهِيدًا.

جب کوئی مظلوم مسلمان (ظالموں کے خلاف) برسر پیکار ہوتے ہوئے قتل ہو جائے تو وہ شہید ہے۔

احمد بن حنبل، مسند، 2 :205، رقم:6913، مصر: مؤسسة قرطبة

حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

أَشْرَفَ عَلَى النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَأَصْحَابِهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ رَأْسِ تَلٍّ فَقَالُوا: مَا أَجْلَدَ هَذَا الرَّجُلَ لَوْ كَانَ جَلَدُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم أَوَ لَيْسَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ قُتِلَ؟ ثُمَّ قَالَ مَنْ خَرَجَ فِي الْأَرْضِ يَطْلُبُ حَلَالًا يَكُفُّ بِهِ أَهْلَهُ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَنْ خَرَجَ يَطْلُبُ حَلَالًا يَكُفُّ بِهِ نَفْسَهُ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَنْ خَرَجَ يَطْلُبُ التَّكَاثُرَ فَهُوَ فِي سَبِيلِ الشَّيْطَانِ.

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے پہاڑ کی چوٹی سے ایک قریشی کو آتے ہوئے دیکھا، صحابہ کرام نے کہا یہ شخص کتنا زیادہ مضبوط ہے کاش اس کی مضبوطی اﷲ کی راہ میں ہوتی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا صرف وہی شخص اﷲ کی راہ میں ہوتا ہے جو قتل ہو جائے؟ پھر فرمایا: جو زمین میں اپنے اہل و عیال کے لیے رزق حلال کے لیے نکلتا ہے وہ بھی اﷲ کی راہ میں ہوتا ہے (یعنی شہید ہوتا ہے)، جو زیادہ مال بنانے کے لیے نکلتا ہے وہ شیطان کی راہ میں ہے۔

عبد الرزاق، المصنف، 5: 271، 272، رقم: 9578، المکتب الاسلامي، بيروت، لبنان

عبد الملک بن ہارون بن عنترہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے اندر کس کو شہید شمار کرتے ہو؟ ہم نے کہا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جو اﷲ کی راہ میں قتل ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  فرمایا:

إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ. مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَالْبَطِنُ شَهِيدٌ، وَالْمُتَرَدِّي شَهِيدٌ، وَالنُّفَسَاءُ شَهِيدٌ وَالْغَرِقُ شَهِيدٌ.

زَادَ الْحُلْوَانِيُّ: وَالسُّلُّ شَهِيدٌ وَالْحَرِيقُ شَهِيدٌ وَالْغَرِيبُ شَهِيدٌ

اس طرح تو میری امت کے بہت کم شہید ہونگے۔ جو اﷲ کی راہ میں قتل ہو جائے وہ بھی شہید ہے، جو (کہیں سے) گِر کر (یا اس کے اوپر کوئی چیز گِر کر) مر جائے وہ بھی شہید ہے، زچگی میں مر جانے والی عورت بھی شہید ہے اور ڈوب کر مر جانے والا بھی شہید ہے۔

حلوانی نے اس میں اضافہ کیا ہے کہ تپ دق کے مرض اور سفر میں مرنے والا بھی شہید ہے۔

هيثمي، مجمع الزوائد، 5: 301، دار الريان للتراث / دار الکتاب، بيروت، القاهرة

فقہاء کے ہاں شہید کی تعریف یہ ہے کہ:

من قَتَلَهُ أَهْلُ الْحَرْبِ وَالْبَغْيِ وَقُطَّاعُ الطَّرِيقِ أو وُجِدَ في مَعْرَكَةٍ وَبِهِ جُرْحٌ أو يَخْرُجُ الدَّمُ من عَيْنَيْهِ أو أُذُنِهِ أو جَوْفِهِ أو بِهِ أَثَرُ الْحَرْقِ أو وَطِئَتْهُ دَابَّةُ الْعَدُوِّ وهو رَاكِبُهَا أو سَائِقُهَا أو كَدَمَتْهُ أو صَدَمَتْهُ بِيَدِهَا أو بِرِجْلِهَا أو نَفَرُوا دَابَّتَهُ بِضَرْبٍ أو زَجْرٍ فَقَتَلَتْهُ أو طَعَنُوهُ فَأَلْقَوْهُ في مَاءٍ أو نَارٍ أو رَمَوْهُ من سُوَرٍ أو أَسْقَطُوا عليه حَائِطًا أو رَمَوْا نَارًا فِينَا أو هَبَّتْ بها رِيحٌ إلَيْنَا أو جَعَلُوهَا في طَرَفِ خَشَبٍ رَأْسُهَا عِنْدَنَا أو أَرْسَلُوا إلَيْنَا مَاءً فَاحْتَرَقَ أو غَرِقَ مُسْلِمٌ أو قَتَلَهُ مُسْلِمٌ ظُلْمًا ولم تَجِبْ بِهِ دِيَةٌ۔۔۔ وَمَنْ قُتِلَ مُدَافِعًا عن نَفْسِهِ أو مَالِهِ أو عن الْمُسْلِمِينَ أو أَهْلِ الذِّمَّةِ بِأَيِّ آلَةٍ قُتِلَ بِحَدِيدٍ أو حَجَرٍ أو خَشَبٍ فَهُوَ شَهِيدٌ.

جسے حربی کافر، باغی اور راہزنوں نے قتل کیا، یا میدان جنگ میں پایا گیا اور اس پر زخم تھے، یا اس کی آنکھ، کان یا پیٹ سے خون بہہ رہا تھا، یا جسم پر جلنے کا نشان تھا یا دشمن کے جانور (سواری) نے اسے روندا، یا سوار تھا یا اپنی سواری کو ہانک رہا تھا یا جانور نے کاٹا یا جانور نے روند ڈالا یا مارنے (ڈانٹنے) سے جانور بدکا، بھاگا اور اسے مار ڈالا یا کسی کو نیزہ مار کر پانی یا آگ میں پھینک کر جلا ڈالا یا جانور کو آندھی ہماری طرف لے آئی، یا لکڑی جلا کر ہماری طرف پھینک دی اور آدمی جل گیا ، یا کسی مسلمان نے ڈبو دیا ، یا ظلم سے مسلمان نے قتل کر دیا اور اس قتل سے قاتل پر دیت واجب نہ ہوئی۔ یونہی جو شخص اپنی جان، مال بچاتے ہوئے قتل ہو گیا، یا مسلمان کی یا ذمیوں (دار الاسلام میں رہنے والے غیر مسلم) حفاظت کرتے ہوئے قتل ہو گیا، کسی بھی آلہ سے لوہا ہو یا پتھر یا لکڑی، وہ شہید ہے۔

الشيخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية المعروف فتاوی عالمگيری، 1: 167، 168، دار الفکر، بيروت

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو شخص حادثاتی موت مر گیا‘ موذی و مہلک بیماری سے مر گیا‘ دوسرے کی جان و مال و عزت یا اپنی جان و مال و عزت کو بچاتے قتل ہوا یا جس طریقہ سے بھی بےگناہ قتل ہوا یا غزاوات میں شہید ہونے والے صحابہ کرام، میدانِ کربلاء کے شہید ہونے والے اصحابِِ امام حسین، وہ تمام لوگ احادیث میں جن کی موت کو شہادت کی موت قرار دِیا گیا ہے۔ اسی طرح سرحدوں اورملک کی حفاظت کی خاطر شہید ہونے والے افواجِ پاکستان و پولیس کے اہلکار یہ تمام شہدا میں شمار ہوتے ہیں۔ لہٰذا افواج پاکستان اور پولیس اہلکار جو سرحدوں کی حفاظت میں اور ملک کے اند ر منشیات فروشوں، ڈکیتوں، چوروں، جواریوں، نامعلوم ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں اور بم دھماکوں میں مارے جاتے ہیں یہ سب شہید ہیں اور ان سب کو اُسی وردی میں بغیر غسل دیئے دفنایا جاسکتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 17 April, 2024 12:30:33 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5094/