Fatwa Online

کیا خمس، زکوٰۃ کا متبادل ہے؟

سوال نمبر:4165

السلام علیکم مفتی صاحب! کچھ لوگ خمس دیتے ہیں، اس خمس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ زکواۃ اور خمس میں‌ کیا فرق ہے؟ کیا خمس زکوٰۃ کا متبادل ہوسکتا ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: زیب النساء

  • مقام: چک جھمرہ
  • تاریخ اشاعت: 05 اپریل 2017ء

موضوع:زکوۃ

جواب:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْئٍ فَاَنَّ ِﷲِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْيَتٰمٰی وَالْمَسٰکِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِلا اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاﷲِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِط وَاﷲُ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌo

اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اور (رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں کے لیے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدان بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

الأنفال، 8: 41

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں مال غنیمت کے پانچویں حصہ کو خمس کا نام دیا گیا ہے۔ آئیے پہلے دیکھتے ہیں کہ مال غنیمت کس کو کہتے ہیں؟ امام قرطبی فرماتے ہیں:

الْغَنِيمَةُ فِي اللُّغَةِ مَا يَنَالُهُ الرَّجُُلُ أَوِ الْجَمَاعَةُ بِسَعْيٍ.

غنیمت لغت میں اس مال کو کہتے ہیں جسے کوئی فرد یا جماعت کوشش اور سعی سے حاصل کرے۔

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 8: 1، القاهرة: دار الشعب

اور غنیمت کا شرعی معنی ہے:

مَالُ الْکُفَّارِ إِذَا ظَفِرَ بِهِ الْمُسْلِمُونَ عَلَی وَجْهِ الْغَلَبَةِ وَالْقَهْرِ.

کفار کا وہ مال جو اُن سے قوت وغلبہ اور لشکر کشی سے حاصل کیا جائے۔

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 8: 1

لہٰذا مسلمانوں کا دورانِ جنگ دشمن پر غلبہ پا کر حاصل کیا جانے والا مال، مالِ غنیمت کہلاتا ہے اور اس مال غنیمت کے پانچویں حصے کو خمس کا نام دیا جاتا ہے۔ جبکہ مال پاک کرنے کی خاطر، صاحب نصاب مسلمان کے مال پر سال بھر گزر جانے کی صورت میں اڑھائی فیصد حصہ لے کر حقداروں کو دینا زکوٰۃ کہلاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِرُهُمْ وَتُزَکِّيْهِمْ بِهَا َوصَلِّ عَلَيْهِمْط اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّهُمْط وَاﷲُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌo

آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بے شک آپ کی دعا ان کے لیے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔

التوبه، 9: 103

اور حدیث مبارکہ میں ہے:

تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِهِمْ.

جو ان کے امیروں سے لے کر، ان کے غریبوں کو دی جائے گی۔

  1. بخاري، الصحيح، 2: 505، رقم: 1331، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، 1: 50، رقم: 19، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

اور زکوٰۃ کے مصارف درج ذیل آیت مبارکہ میں بڑی وضاحت سے بیان کئے گئے ہیں:

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَابْنِ السَّبِيْلِط فَرِيْضَةً مِّنَ اﷲِط وَاﷲُ عَلِيْمٌ حَکِيْمٌo

بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔

التوبة، 9: 60

اور قرآن مجید میں بار بار نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم آیا ہے:

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِيْنَo

اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو۔

البقرة، 2: 43

اور ایک مقام پر ہے:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَ ِﷲِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِo

(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔

الحج، 22: 41

اسلام کی بنیاد جن پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے، ان میں ایک زکوٰۃ ادا کرنا بھی ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ  رضی الله عنهما قَالَ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ: بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اﷲِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّکَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ.

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: گواہی دینا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودنہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج اور رمضان کے روزے۔

  1. بخاري، الصحيح، 1: 12، رقم: 8
  2. مسلم، الصحيح، 1: 45، رقم: 16

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبد القیس کا وفد بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! ہم ربیعہ قبیلے میں رہتے ہیں ہمارے اور آپ کے درمیان کفارانِ مضر آباد ہیں جن کی وجہ سے ہم آپ کی بارگاہ میں صرف حرمت والے مہینوں میں ہی حاضر ہوسکتے ہیں۔ آپ ہمیں کوئی ایسی چیز بتائیں جس کی ہم اپنے قبیلے کے باقی افراد کو دعوت دیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا:

آمُرُکُمْ بِأَرْبَعٍ وَأَنْهَاکُمْ عَنْ أَرْبَعٍ الْإِيمَانِ بِاﷲِ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَعَقَدَ بِيَدِهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّکَاةِ وَصِيَامِ رَمَضَانَ وَأَنْ تُؤَدُّوا لِلّٰهِ خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ وَأَنْهَاکُمْ عَنْ الدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ.

میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں، اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں۔ اللہ پر ایمان رکھنا اور گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، روزے رکھنا اور مال غنیمت سے خمس ادا کرنا۔ اور تمہیں کدو کے تونبے، یدی ہوئی لکڑی کے برتن، ٹھلیا اور روغنی برتن (شراب رکھنے اور پینے کے برتنوں) سے منع کرتا ہوں۔

  1. بخاري، الصحيح، 3: 1128، رقم: 2928
  2. مسلم، الصحيح، 1: 46، رقم: 17

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ خمس اور زکوٰۃ دو الگ مستقل عبادات ہیں، دونوں ایک دوسرے کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔ جہاد میں فتح کے بعد دشمن سے حاصل ہونے والے مالِ غنیمت سے پانچواں حصہ مالِ غنیمت کے مصارف کو ادا کرنا خمس ہے۔ آج کے دور میں بھی مالِ غنیمت کے مصارف وہی ہیں جو صدرِ اسلام میں تھے۔ اگر کوئی شخص اپنے ذاتی کاروبار، تجارت اور محنت سے کمائی گئی دولت میں سے خمس ادا کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کے لیے باعثِ اجر ہے، مگر صاحبِ نصاب ہونے پر اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہوگی۔ نفلی صدقات دینے والا اگر صاحبِ نصاب ہو تو اس پر زکوٰۃ الگ سے ادا کرنا فرض ہے۔ صدقہ، زکوٰۃ کا متبادل نہیں ہوسکتا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 20 April, 2024 04:18:47 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4165/