Fatwa Online

کیا دینی مدارس مصارفِ زکوٰۃ میں شامل ہیں؟

سوال نمبر:4118

السلام علیکم مفتی صاحب! میں اور میرے کچھ احباب ملتان میں یتیم بچیوں‌ کی دینی تعلیم کے لیے ایک ادارہ بنانا چاہتے ہیں۔ کیا اس کے لیے زکواۃ کی رقم استعمال کی جاسکتی ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: مشتاق احمد

  • مقام: ملتان
  • تاریخ اشاعت: 25 جنوری 2017ء

موضوع:زکوۃ

جواب:

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ط فَرِيْضَةً مِّنَ اﷲِط وَاﷲُ عَلِيْمٌ حَکِيْمٌo

بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔

التوبة، 9: 60

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں آٹھ مصارف زکوٰۃ بیان کئے گئے ہیں، جن میں سے ایک ’فی سبیل اﷲ‘ کا بھی ہے۔ اس مصرف کے بارے میں فقہائے کرام کی رائے ہے کہ:

و في سبيل اﷲ عبارة عن جميع القرب فيدخل فيه کل من سعی في طاعة اﷲ وسبيل الخيرات إذا کان محتاجا.

فی سبیل اﷲ سے مراد ہے تمام نیکی کے کام ہیں۔ اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اﷲ کی اطاعت اور نیک کاموں میں تگ ودو کرے، جبکہ (اس کے لیے وہ زکوٰۃ کی رقم کا) حاجت مند ہو۔

  1. علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 2: 45، بيروت: دار الکتاب العربي
  2. ابن نجيم، البحر الرائق، 2: 260، بيروت: دار المعرفة
  3. ابن عابدين شامي، رد المحتار، 2: 323، بيروت: دار الفکر

دینی تعلم کا فروغ فی سبیل اللہ کے مصرف میں شامل ہے اس لیے آپ زکوٰۃ کے پیسوں سے دینی ادارہ بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ ادارے میں صرف یتیم بچیاں ہی تعلیم حاصل کریں۔ آپ ادارے کا اچھا نام رکھیں جس سے یتیم بچیوں کو بھی احساس کمتری نہ ہو اور غریب و نادار بچیوں کے ساتھ ہر طبقہ کی طالبات کو داخلہ دیں تاکہ ادارے میں تعداد اچھی ہو۔ جو طالبات فیس ادا کر سکتی ہیں اُن سے فیس لے کر ادارے میں اچھا سٹاف رکھیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 20 April, 2024 10:51:00 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4118/