جواب:
انسان کی وفات کے بعد جو کچھ بھی اس کی ملکیت میں ہوتا ہے، خواہ اکاؤنٹ میں ہو یا گھر میں، وہ شریعت کے مقرر کردہ حصوں کے مطابق ورثاء میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يُوْصِيْکُمُ اﷲُ فِيْٓ اَوْلَادِکُمْ ق لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ج فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ج وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ط.
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی (2/3) حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا (1/2) ہے۔
النساء، 4: 11
اور اگلی آیت مبارکہ میں میاں بیوی میں سے کسی ایک فرد کے وفات پا جانے کے بعد دوسرے کے حصہ پانے کی صورتیں بیان کی گئی ہیں:
وَلَکُمْ نِصْفُ مَاتَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَّمْ يَکُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ ج فَاِنْ کَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْم بَعْدِ وَصِيَةٍ يُّوْصِيْنَ بِهَآ اَوْ دَيْنٍ ط وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ يَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ ج فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْم بَعْدِ وَصِيَةٍ تُوْصُوْنَ بِهَآ اَوْ دَيْنٍ ط
اور تمہارے لیے اس (مال) کا آدھا (1/2) حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لیے ان کے ترکہ سے چوتھائی (1/4) ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا (1/4) حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں (1/8) حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد
النساء، 4: 12
لہٰذا میاں بیوی کے جوائنٹ اکاؤنٹ میں پڑی ہوئی آپ کی دولت صرف آپ کی بیوی کو نہیں ملے گی بلکہ بطور وراثت بیوہ اور بچوں میں مذکورہ بالا احکام کے مطابق تقسیم ہو گی۔ اگر آپ کے والدین زندہ ہوئے تو اُن کو بھی چھٹا چھٹا حصہ ملے گا۔ یعنی شرعی قانون کے مطابق آپ کی ملکیت میں جو کچھ بھی ہوگا اُسے ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔ دوسری صورت میں اگر آپ بیوی کے حق میں وصیت بھی کر جائیں تو وہ قابل قبول نہیں ہو گی کیونکہ ایک تہائی مال کی وصیت غیر وارث کے لئے ہوتی ہے۔ اگر کوئی وارث کے لئے وصیت کر جائے تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ احادیث مبارکہ میں ہے:
عَنِ ابْنِِِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: کَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ، وَکَانَتْ الْوَصِيَةُ لِلْوَالِدَيْنِ، فَنَسَخَ اﷲُ مِنْ ذٰلِکَ مَا أَحَبَّ، فَجَعَلَ لِلذَّکَرِ مِثْلَ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، وَجَعَلَ لِلْأَبَوَيْنِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسَ، وَجَعَلَ لِلْمَرْأَةِ الثُّمُنَ وَالرُّبُعَ، وَلِلزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبُعَ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ (اسلام کے ابتدائی دور میں) مال اولاد کا حق ہوتا تھا اور والدین کے لیے وصیت کی جاتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں سے جو چاہا منسوخ فرمادیا اور ایک مرد کا دو عورتوں کے برابر حصہ مقرر فرما دیا، اور ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ دلایا بیوی کا حق آٹھواں حصہ اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں چوتھائی بتایا جبکہ خاوند کا نصف اور (اولاد ہونے کی صورت میں) چوتھائی مقرر فرمایا۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں بالکل واضح فرمایا:
عَنْ شُرَحْبِيلَ رضی الله عنه بْنِ مُسْلِمٍ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ رضی الله عنه سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِa يَقُولُ إِنَّ اﷲَ قَدْ أَعْطَی کُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَةَ لِوَارِثٍ.
حضرت شرحبیل بن مسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲa کو فرماتے ہوئے سنا کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیا ہے۔ لہٰذا وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ہے۔
(دیگر محدثین نے بھی یہ حدیث مبارکہ نقل کی ہے)
لہٰذا دونوں صورتوں میں تمام ورثاء حصہ پائیں گے۔ باقی ورثاء کے مشورہ سے آپ اپنی زندگی میں بیوی کو جو کچھ دے دیں وہ اس کی مالک ہو جائے گی اور اس کی ملکیت والی اشیاء آپ کے ترکہ میں شامل نہیں ہوں گی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔