جواب:
قصر نماز کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ق اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَکُمُ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا ط اِنَّ الْکٰفِرِيْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًاo
’’اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو) اگر تمہیں اندیشہ ہے کہ کافر تمہیں تکلیف میں مبتلا کر دیں گے۔ بے شک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں۔‘‘
النساء، 4: 101
یہاں یہ بات کسی کے ذہن میں آسکتی ہے کہ آج کل تو سفر اتنا مشکل نہیں ہے اور نہ ہی اکثر کفار کی طرف سے تکلیف میں مبتلا کرنے کا ڈر ہوتا ہے پھر نماز قصر کیوں کی جاتی ہے؟ اس کا جواب درج ذیل حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ يَعْلَی بْنِ أُمَيَةَ قَالَ قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ {لَيْسَ عَلَيْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَکُمُ الَّذِينَ کَفَرُوا} ]النساء، 4: 101[ فَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ فَقَالَ عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اﷲِ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اﷲُ بِهَا عَلَيْکُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ.
’’حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے {اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو) اگر تمہیں اندیشہ ہے کہ کافر تمہیں تکلیف میں مبتلا کر دیں گے} حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے بھی اس بات پر تعجب ہوا تھا۔ میں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے (سفر میں تخفیف نماز کا) صدقہ کیا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے صدقہ کو قبول کرو!‘‘
قصر نماز کے لئے سفرِ شرعی کی مقدار کا جاننا بہت ضروری ہے۔ فقہاء کرام کے نزدیک وہ سفر جس میں نماز قصر کرنا واجب ہے اس کی مقدار متوسط چال کے اعتبار سے تین دن کی مسافت ہے جوکہ انسان یا اونٹ وغیرہ کی چال کے اعتبار سے ہے اور پورا دن بھی نہ چلے بلکہ صبح سے دوپہر تک چلے پھر پڑاؤ ڈال لے۔ موجودہ دور میں فقہاء کرام نے اس کی مسافت کا اندازہ کر کے 48 میل مقرر کی ہے جو کہ کلو میٹر کے حساب سے تقریباً 78 کلو میٹر بنتی ہے اب یہ 48 میل یا تقریباً 78 کلومیٹر معتبر ہے۔ اگر کوئی موٹر سائیکل، گاڑی یا جہاز وغیرہ پر بہت کم وقت میں یہ سفر طے کر لے تو اس کا بھی حکم وہی ہے یعنی وہ مسافر ہے۔
فقہاء احناف سفر شرعی کی مقدار کا تعین کرنے میں استدلال درج ذیل احادیث صحیحہ سے کرتے ہیں:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ لَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ ثَلَاثَةَ أَيَامٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ.
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت تین دن کا سفر نہ کرے مگر اپنے محرم کے ساتھ۔‘‘
موزوں پر مسح کرنے والی حدیث مبارکہ سے بھی سفر شرعی تین دن ہی ثابت ہے:
عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِيئٍ رضی الله عنه قَالَ أَتَيْتُ عَائِشَةَ رضی الله عنها أَسْأَلُهَا عَنِ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّيْنِ فَقَالَتْ عَلَيْکَ بِابْنِ أَبِي طَالِبٍ فَسَلْهُ فَإِنَّهُ کَانَ يُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فَسَأَلْنَاهُ فَقَالَ جَعَلَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم ثَـلَاثَةَ أَيَامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ لِلْمُسَافِرِ وَيَوْمًا وَلَيْلَةً لِلْمُقِيمِ.
’’حضرت شریح بن ہانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر موزوں پر مسح کرنے کی مدت پوچھی، آپ نے فرمایا: حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس جائو اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کرو کیونکہ وہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اکثر سفر میں رہا کرتے تھے۔ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسافر کے لیے تین دن اور تین راتوں کی اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات کی مدت مقرر فرمائی ہے۔‘‘
امام محمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قلت: أرأيت المسافر هل يقصر الصلاة في أقل من ثلاثة أيام قال لا قلت فان سافر مسيرة ثلاثة أيام فصاعدا قال يقصر الصلاة حين يخرج من مصره قلت ولم وقت له ثلاثة أيام قال لأنه جاء أثر عن النبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم أنه قال لا تسافر المرأة ثلاثة أيام إلا ومعها ذو محرم فقست علی ذالک.
’’میں نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تین دن سے کم سفر میں مسافر قصر کر سکتا ہے؟ فرمایا: نہیں، میں نے پوچھا اگر وہ تین دن یا اس سے زیادہ مسافت کا سفر کرے؟ فرمایا اپنے شہر سے نکلنے کے بعد قصر کرنا شروع کر دے۔ میں نے پوچھا: تین دن کے تعیّن کی کیا دلیل ہے؟ فرمایا: حدیث مبارکہ میں ہے۔ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت تین دن کا سفر محرم کے بغیر نہ کرے میں نے اس مسئلہ کو عورت کے سفر پر قیاس کیا ہے۔‘‘
محمد بن حسن شیباني، المبسوط، 1: 265، کراتشي: ادارة القرآن والعلوم الاسلامية
علامہ بدرا لدین محمود العینی فرماتے ہیں:
عن محمد ولم يريدوا به السير ليلاً ونهارا لأنهم جعلوا النهار للسير والليل للاستراحة ولو سلک طريقا هي مسيرة ثلاثة أيام وأمکنه أن يصل إليها في يوم من طريق أخری قصر ثم قدروا ذلک بالفراسخ فقيل أحد وعشرون فرسخا وقيل ثمانية عشر وعليه الفتوي وقيل خمسة عشر فرسخا وإلی ثلاثة أيام ذهب عثمان بن عفان وابن مسعود وسويد بن غفلة والشعبي والنخعي والثوري وابن حيي وأبو قلابة وشريک بن عبد اﷲ وسعيد بن جبير ومحمد بن سيرين.
’’امام محمد بیان کرتے ہیں کہ مسافت سفر میں یہ مراد نہیں ہے کہ دن رات سفر کرتے رہیں کیونکہ دن سفر اور رات آرام کے لیے ہے اگر مسافر ایسے راستہ پر چلے جو تین دن کی مسافت کا ہو ــــــــــ خواہ کسی اور راستہ سے اس مسافت کو ایک دن میں طے کرنا ممکن ہو قصر کرے پھر تین دن کی مسافت کا فرسخ کی مقدار سے اندازہ کیا گیا ہے۔ بعض فقہاء نے اکیس فرسخ اندازہ کیا، بعض نے اٹھارہ فرسخ اور بعض نے پندرہ فرسخ، فتوی اٹھارہ فرسخ پر ہے۔ حضرات عثمان بن عفان، ابن مسعود، سوید بن غفلہ، شعبی، نخعی، ثوری، ابن حیّ، ابو قلابہ، شریک بن عبد اﷲ، سعید بن جبیر اور محمد بن سرین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے تین دن مسافت کا اعتبار کیا ہے۔‘‘
عيني، عمدة القاري، 7: 119، بيروت: دار احياء التراث العربي
حدیث مبارکہ میں چار بُرد مسافت کا بھی ذکر آیا ہے:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ: يَا أَهْلَ مَکَّةَ لَاتَقْصُرُوْا الصَّلَاةَ فِيْ أَدْنَی مِنْ أَرْبَعَةِ بُرُدٍ مِنْ مَکَّةَ إِلَی عُسْفَانَ.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے مکہ والو! چار برد سے کم سفر پر قصر نہ کیا کرو جو مکہ سے عسفان تک ہے۔‘‘
امام بخاری رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
کَانَ ابْنُ عُمَرَ وَابْنُ عَبَّاسٍ رضی الله تعالیٰ عنهم يَقْصُرَانِ وَيُفْطِرَانِ فِي أَرْبَعَةِ بُرُدٍ وَهِيَ سِتَّةَ عَشَرَ فَرْسَخًا.
’’حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم قصر کرتے اور روزہ چھوڑتے چار برد کے سفر پر اور وہ سولہ فرسخ ہوتے ہیں۔‘‘
بخاري، الصحيح، 1: 368
بُرد، برید کی جمع ہے جس کے کئی معانی ہیں لیکن ایک معنی لمبائی کا پیمانہ بھی ہے جو ذیل میں بیان کیا گیا ہے:
سکک البريد کل سکة منها اثنا عشر ميلا والسفر الذي يجوز فيه قصر الصلاة أربعة برد وهي ثمانية وأربعون ميلا بالأميال الهاشمية التي في طريق مکة.
’’قاصد کی مسافت (سکہ) ہے، ہر سکہ بارہ میل ہے۔ وہ سفر جس میں نماز قصر کرنا جائز ہے، چا بُرد ہیں۔ یہ ہاشمی میلوں کے حساب سے جو مکہ مکرمہ کے راستہ میں ہیں 48 میل بنتے ہیں۔‘‘
لاتقصر الصلاة في أقلّ من أربعة بُرد وهي ستة عشر فرسخا والفرسخ ثلاثة أميال والميل أربعة آلاف ذراع.
’’چار بُرد سے کم مسافت ہو تو نماز قصر نہ ہوگی۔ اور وہ (چار برد) سولہ (16) فرسخ ہیں اور ایک فرسخ تین میل کا اور میل چار ہزار ہاتھ کا ہوتا ہے۔‘‘
ابن أثير، النهاية في غريب الحديث والأثر، 1: 116، بيروت: المکتبة العلمية
لہٰذا نماز قصر واجب ہونے کے لئے کل مسافت 48 میل یا تقریباً 78 کلو میٹر ہے۔
حضرت یحییٰ بن ابو اسحاق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَی مَکَّةَ فَکَانَ يُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ رَکْعَتَيْنِ حَتَّی رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَةِ قُلْتُ أَقَمْتُمْ بِمَکَّةَ شَيْئًا قَالَ أَقَمْنَا بِهَا عَشْرًا.
’’ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف نکلے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دو دو رکعتیں پڑھتے، یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ میں لوٹ آئے۔ میں نے کہا: آپ مکہ مکرمہ میں کچھ ٹھہرے؟ فرمایا: ہاں اس میں دس روز ٹھہرے۔‘‘
حضرت عمر بن ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے مجاہد رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضی الله عنهما إِذَا قَدِمَ مَکَّةَ فَأَرَادَ أَنْ يُقِيمَ خَمْسَ عَشْرَةَ لَيْلَةً سَرَّحَ ظَهَرَهُ، فَأَتَمَّ الصَّلَاةَ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما جب مکہ جاتے اور پندرہ دن قیام کا ارادہ کرتے تو اپنی پشت کھول دیتے اور پوری نماز پڑھتے۔‘‘
عبد الرزاق، المصنف، 2: 534، رقم: 4343
امام محمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قلت أرأيت إن سافر ثلاثة أيام فصاعدا فقدم المصر الذي خرج إليه أيتم الصلاة؟ قال إن کان يريد أن يقيم فيه خمسة عشر يوما أتم الصلاة وإن کان لا يدري متی يخرج قصر الصلاة قلت ولم وقت خمسة عشر يوما؟ قال للأثر الذي جاء عن عبد اﷲ بن عمر رضی الله عنهما.
میں نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا اگر کوئی شخص تین دن یا اس سے زیادہ کی مسافت طے کر کے اس شہر میں پہنچ جائے جس کے لئے اس نے سفر کیا تھا تو کیا وہ پوری نماز پڑھے گا؟ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر اس کی نیت پندرہ دن قیام کی ہے تو نماز پوری پڑھے گا اور اگر اس کو پتا نہ ہو کہ وہ کب تک قیام کرے گا تو قصر کرے۔ میں نے پوچھا آپ نے پندرہ دن کس دلیل سے متعین کئے ہیں؟ فرمایا: حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے۔‘‘
محمد بن حسن شيباني، المبسوط، 1: 266
لہٰذا احناف کے نزدیک سفر شرعی کے بعد کسی مقام پر پندرہ دن قیام کے ارادہ سے نماز قصر ختم ہو جائے گی۔ مگر پندرہ دن قیام کے ارادہ سے کسی مقام پر جاتے اور واپسی آتے ہوئے دوران سفر نماز قصر ہی واجب ہو گی۔ اور پندرہ دن سے کم مدت قیام کی نیت سے دوران قیام بھی نماز قصر واجب ہو گی۔
وطن کی اقسام کون کون سی ہیں اور ان پر کیا احکام لاگو ہوتے ہیں، ذیل میں مکمل وضاحت دی گئی ہے:
ويبطل الوطن الأصلي بمثله فقط ويبطل وطن الاقامه بمثله وبالسفر وبالأصلي والوطن الأصلي هو الذي ولد فيه أو تزوج أو لم يتزوج وقصد التعيش لا الارتحال عنه ووطن الاقامة موضع نوی الاقامة فيه نصف شهر فما فوقه ولم يعتبر المحققون وطن السکنی وهو ما ينوي الاقامة فيه دون نصف شهر.
’’وطن اصلی، صرف اُس جیسے (متبادل) وطن اصلی سے ہی ختم ہوتا ہے۔ اور وطن اقامت دوسرے وطن اقامت، اور سفر سے اور وطن اصلی (کو لوٹ جانے) سے ختم ہوتا ہے۔ وطن اصلی جہاں آدمی پیدا ہوا، یا شادی کر لی، یا شادی نہیں کی اور روزگار کی جگہ جس سے کہیں اور منتقل نہ ہو۔ وطن اقامت وہ جہاں پندرہ دن یا زیادہ سکونت کی نیت کر لی، محقّقین نے وطن سکونت کا اعتبار نہیں کیا، جہاں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی‘‘۔
حسن الوفائي، نور الايضاح، 1: 71، دمشق: دار الحکمة
یہی بات الفقہ الاسلامي و أدلتہ میں ان الفاظ میں درج ہے:
يتبين أن الوطن الأ صلي للانسان يبطل إذا هاجر بنفسه وأهله ومتاعه إلی بلد آخر، فان عاد الی بلده الأول لعمل مثلاً، وجب عليه قصر الصلاة.
’’جب انسان اپنے وطن اصلی کو چھوڑ دیتا ہے۔ اہل و عیال اور اپنا سامان چھوڑ کر کسی اور شہر ہجرت کر جاتا ہے۔ اگر وہ اپنے پہلے شہر کی طرف کسی کام کے لئے آتا ہے تو اس پر نماز قصر واجب ہوتی ہے۔‘‘
مزید بیان کرتے ہیں:
اِنّ الوطن الأصلي يبطل بمثله، دون السفرعنه، بدليل أنه عليه السلام بعد الهجرة عد نفسه بمکة من المسافرين، أمالو سافرعنه إلی بلد آخر مدة مؤقته کأن ترک دمشق اِلی حلب، ثم عاد إليه فيتم الصلاة، لأن الوطن الأصلي لا يبطل حکمه بوطن الاقامة ولا بالسفر، لأن الشيء لا يبطل بما هو دونه، بل بما هو مثله أو فوقه.
’’وطن اصلی دوسرا وطن اصلی بنانے سے ختم ہو جاتا ہے۔ سفر سے وطن اصلی ختم نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے بعد مکہ میں آکر اپنے آپ کو مسافر شمار کیا لیکن اگر کوئی وطن اصلی سے محدود مدت کے لئے دوسرے شہر کی طرف سفر کرے۔ مثلاً دمشق سے حلب چلا گیا پھر واپس اپنے وطن میں آگیا تو نماز پوری ادا کی جائیگی۔ کیونکہ وطن اصلی کا حکم وطن اقامۃ کے سفر سے باطل نہیں ہوتا۔ کیونکہ کوئی شے اپنے سے کم درجہ کی چیز سے ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ اپنے سے برابر یا اوپر والے درجے سے ختم ہوتی ہے۔‘‘
وهبة الزحيلي، الفقة الاسلامي وأدلته، 2: 1365، دار الفکر المعاصر
یعنی جہاں انسان کا گھر ہو اور بیوی بچے وغیرہ رہتے ہوں جیسے جائے پیدائش وغیرہ یہی وطن اصلی ہوتا ہے۔ اور یہ اس وقت تک رہتا ہے جب تک کسی دوسری جگہ پر اپنی رہائش اور اہل و عیال کو منتقل نہ کر دے اور اگر وہ وطن اصلی کے مکان، زمین وغیرہ فروخت کر دے اور دوسری جگہ پر اہل و عیال کے ساتھ مستقل طور پر سکونت اختیار کرلے۔ تو پہلا وطن اصلی ختم ہو جائے گا۔ اور دوسرا وطن اصلی بن جائے گا۔ اس صورت میں پہلے وطن اصلی کی طرف کبھی جانا ہو تو آدمی مسافر ہی رہے گا۔ جیسے کسی اور علاقے کی طرف سفر پر جائے جب تک 15 دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرے، مسافر رہے گا اور نماز قصر کرے گا۔ اور چونکہ دوسرا وطن اس کے لئے وطن اصلی ہے اس لئے جب واپس گھر آئے گا تو سفر اور قصر ختم ہو جائے گا۔
اگر کوئی اپنے وطن اصلی سے ملازمت، کاروبار، سیر و سیاحت یا تعلیم کی خاطر کسی دوسری جگہ چلا جائے اور کسی ایک شہر میں کم سے کم 15 دن ٹھہرنے کا ارادہ کر لے تو سفر اور قصر دونوں ختم ہو جائیں گے اور یہ وطن اقامت ہو گا۔ اور نماز پوری ادا کرے گا۔ جب کبھی اپنے کام سے فارغ ہو گا تو اس وطن اقامت سے وطن اصلی یعنی اپنے گھر آئے گا۔تو اقامت کی نیت کرے یا نہ کرے مقیم ہو جائے گا۔ سفر اور قصر کے احکام ختم ہو جائیں گے۔
خلاصہ یہ کہ وطن اصلی دوسرے وطن اصلی سے ختم ہو جائے گا۔ لیکن وطن اقامت سے وطن اصلی ختم نہیں ہو گا۔ وطن اصلی میں بھی مکمل نماز اور وطن اقامت میں بھی مکمل نماز ادا کی جائے گی۔ ہاں وطن اقامت دوسرے وطن اقامت یا وطن اصلی سے ختم ہوجاتا ہے۔ چاہے یہ صورت ملازمین کو پیش آئے، سیر و سیاحت والوں کو پیش آئے، تاجروں کو پیش آئے، طالب علموں کو پیش آئے یا کسی اور کو پیش آئے۔
قصر کی اجازت صرف فرائض میں ہے جہاں تک بقیہ نماز کا تعلق ہے اس میں قصر نہیں ہوتی البتہ اس کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں یعنی خوف اور رواداری کی حالت میں بقیہ نماز ادا نہیں کی جائے گی جبکہ حالت امن میں مکمل طور پر ادا کی جائے گی۔ متعدد احادیث مبارکہ میں صراحت کے ساتھ اس بات کا ذکر موجود ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر کے دوران بقیہ نماز بھی ادا فرمائی ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي الْحَضَرِ الظُّهْرَ أَرْبَعًا وَبَعْدَهَا رَکْعَتَيْنِ وَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي السَّفَرِ الظُّهْرَ رَکْعَتَيْنِ وَبَعْدَهَا رَکْعَتَيْنِ وَالْعَصْرَ رَکْعَتَيْنِ وَلَمْ يُصَلِّ بَعْدَهَا شَيْئًا وَالْمَغْرِبَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ سَوَاءً ثَلَاثَ رَکَعَاتٍ لَا تَنْقُصُ فِي الْحَضَرِ وَلَا فِي السَّفَرِ وَهِيَ وِتْرُ النَّهَارِ وَبَعْدَهَا رَکْعَتَيْنِ.
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر و حضر میں نماز پڑھی ہے، حضر میں ظہر کی نماز چار رکعتیں پڑھیں اور پھر دو، سفر میں دو رکعتیں پڑھیں اور پھر دو، عصر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد کچھ نہ پڑھا۔ مغرب کی نماز سفر و حضر میں تین رکعات پڑھیں۔ سفر و حضر میں دن میں کوئی کمی نہ کی یہ (مغرب کے تین فرائض) دن کے وتر ہیں۔ اس کے بعد دو رکعتیں ادا فرمائیں۔‘‘
ترمذي، السنن، 2: 437، رقم: 552
ایک دوسری حدیث مبارکہ ہے:
عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه قَالَ: صَحِبْتُ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَفَرًا فَمَا رَأَيْتُهُ تَرَکَ رَکْعَتَيْنِ إِذَا زَاغَتْ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ.
’’حضرت براء بن عازب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اٹھارہ سفروں میں حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل کیا لیکن میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے دو رکعتوں کو ترک کیا ہو۔‘‘
ان احادیث مبارکہ کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسی احادیث بھی ملتی ہیں جن میں ذکر ہے کہ حضور سفر کے دوران فقط دو رکعت فرض ادا کرتے یعنی صرف فرائض میں قصر کرتے تھے بقیہ نماز ادا نہ فرماتے۔ حضرت حفص بن عاصم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں سفر مکہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھا، انہوں نے ہمیں دو رکعت ظہر پڑھائی، پھر وہ اور ہم اپنی قیام گاہ پر آ کر بیٹھ گئے اچانک حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے دیکھا لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، پوچھا یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا یہ سنتیں پڑھ رہے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لَوْ کُنْتُ مُسَبِّحًا لَأَتْمَمْتُ صَلَاتِی يَا ابْنَ أَخِي إِنِّي صَحِبْتُ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِي السَّفَرِ فَلَمْ يَزِدْ عَلَی رَکْعَتَيْنِ حَتَّی قَبَضَهُ اﷲُ وَصَحِبْتُ أَبَا بَکْرٍ فَلَمْ يَزِدْ عَلَی رَکْعَتَيْنِ حَتَّی قَبَضَهُ اﷲُ وَصَحِبْتُ عُمَرَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَی رَکْعَتَيْنِ حَتَّی قَبَضَهُ اﷲُ ثُمَّ صَحِبْتُ عُثْمَانَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَی رَکْعَتَيْنِ حَتَّی قَبَضَهُ اﷲُ وَقَدْ قَالَ اﷲُ {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اﷲِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ} ]الاحزاب، 33: 21[
’’اگر میں سنتیں پڑھتا تو فرض نماز پوری (چار رکعت) نہ پڑھ لیتا! اے بھتیجے میں سفر میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ رہا ہوں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاحیات، سفر میں دو رکعات سے زیادہ نہیں پڑھیں۔ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بھی رہا انہوں نے بھی تاحیات (سفر میں) دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں، اور میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بھی رہا، انہوں نے بھی تاحیات (سفر میں) دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں اور میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی رہا ہوں، انہوں نے بھی (سفر میں) دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘
حضرت یحییٰ بن ابو اسحاق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَی مَکَّةَ فَکَانَ يُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ رَکْعَتَيْنِ حَتَّی رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَةِ قُلْتُ أَقَمْتُمْ بِمَکَّةَ شَيْئًا قَالَ أَقَمْنَا بِهَا عَشْرًا.
’’ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف نکلے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دو دو رکعتیں پڑھتے، یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ میں لوٹ آئے۔ میں نے کہا: آپ مکہ مکرمہ میں کچھ ٹھہرے؟ فرمایا: ہاں اس میں دس روز ٹھہرے۔‘‘
فقہاء کرام نے انہی احادیث کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے:
ولاقصر في السنن کذا في محيط السرخسي وبعضهم جوزوا للمسافر ترک السنن والمختار أنہ لايأتي بھا في حال الخوف ويأتي بها في حال القرار والأمن.
’’اور سنتوں میں قصر نہیں ہے جیسا کہ امام سرخسی کی کتاب محیط میں ہے۔ اور بعض فقہاء سنتیں ترک کرنا جائز قرار دیتے ہیں اور قول مختار یہ ہے کہ مسافر خطرہ کی حالت میں سنتیں ادا نہیں کرے گا مگر حالت امن اور سکون میں ادا کرے گا۔‘‘
الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 139، بهروت، لبنان: دارالفکر
ويأتي المسافر بالسنن إن کان في حال أمن وقرار وإلا بأن کان في خوف وفرار لا يأتي بها هو المختار لأنه ترک لعذر.
’’مسافر اگر حالت امن و قرار میں ہے تو پوری سنتیں ادا کرے اور اگر خوف وفرار میں ہے تو ادا نہ کرے۔ یہی قول مختار ہے کہ اس نے عذر سے ادا نہیں کیں۔‘‘
حصکفي، الدر المختار، 2: 131، بيروت: دار الفکر
لہٰذا مسافر چار رکعات فرائض میں سے دو ادا کرے گا اور دو یا تین فرائض اور وتر میں قصر نہیں ہے۔ اور سنن ونوافل بآسانی ادا کر سکتا ہو تو کر لے باعث اجرو ثواب ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔