جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
دوسری بیوی کو پہلی بیوی کے کمرے میں چند دن ٹھہرانے سے پہلی پر کوئی ظلم نہیں ہوا۔ ایسا کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ اگر آپ ایک بیوی کے کہنے پر یا ایک کی وجہ سے دوسری بیوی کو گھر سے نکال دیں یا طلاق دے دیں تو یہ ظلم ہوگا اور عنداللہ آپ کی پکڑ ہوگی۔ اس لیے دونوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے دوسری سے زیادتی نہ کیجیے۔
قسم دیتے وقت آپ نے ’ان شاءاللہ‘ کہا جس کی وجہ سے قسم لغو ہوگئی۔ ایسی قسموں کو توڑنے کا کفارہ نہیں ہوتا۔ حدیثِ مبارکہ میں رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی يَمِينٍ فَقَالَ إِنْ شَاءَ اﷲُ فَقَدْ اسْتَثْنَی
’’حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرفوعاً روایت کرتے ہوئے فرمایا: جو کسی بات پر قسم کھائے اور ان شاءاللہ کہے تو اس نے استثناء کرلیا۔‘‘
تیسری بات آپ نے پوچھی کہ مذکورہ مسئلہ کو کس طرح حل کیا جائے؟ اس کے لئے پہلے اس حوالہ سے چند احکام شرعی کا جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔ وہ یہ کہ قرآن مجید فرقان حمید میں دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کے لئے عدل وانصاف شرط ہے:
فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ج فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً
’’تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے) پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو)۔‘‘
النساء، 4: 3
بلکہ حدیث مبارکہ میں تو ایک شادی بھی استطاعت کے ساتھ مشروط ہے، اگر کوئی شخص ایک بیوی کی بھی رہائش، کھانا پینا اور دیگر اخراجات پورے نہیں کر سکتا تو اسے روزے رکھنے کا کہا گیا ہے:
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ عَنْ اَبِي حَمْزَةَ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ بَيْنَا اَنَا اَمْشِي مَعَ عَبْدِ اﷲِ فَقَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فَقَالَ مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَ ةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَاَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ
’’حضرات عبدان، ابو حمزہ، اعمش، ابراہیم، علقمہ اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے فرمایا: تم میں سے جو شخص گھر بسانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نظر کو جھکاتا ہے اور شرمگاہ کے لیے اچھا ہے اور جو ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزہ رکھے کیونکہ یہ شہوت کو گھٹاتا ہے۔‘‘
اگر آپ دونوں بیویوں کے حقوق پورے کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تو رہائش، کھانے پینے، ان کے ساتھ وقت گزارنے اور دیگر معاملات میں عدل وانصاف قائم رکھیں۔ کسی ایک کی طرف زیادہ مائل ہونے کی بجائے دونوں میں برابری کا برتاؤ کریں، ورنہ اس کے بارے میں وعید سنائی گئی ہے:
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ مَنْ کَانَتْ لَهُ إِمْرَاَتَانِ يَمِيلُ مَعَ إِحْدَاهُمَا عَلَی الْاُخْرَی جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاَحَدُ شِقَّيْهِ سَاقِطٌ
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف مائل ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو ساقط (گرا ہوا) ہو گا۔‘‘
سلیمان بن داؤد، اسحاق بن راہویہ، عبداﷲ بن علی بن الجارود، علی بن علی بن ابو بکر اور دیگر محدثین نے بھی اس حدیث مبارکہ کو روایت کیا ہے۔
لہٰذا آپ کا فریضہ ہے کہ دونوں بیویوں کے حقوق کا خیال رکھیں اور ان کے درمیان عدل و انصاف قائم کریں۔ ان شاءاللہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔