جواب:
سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں۔ ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پہ وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت دی گئی ہے:
لغت میں ربا کا معنی زیادتی‘ بڑھوتری اور بلندی ہے۔ ابو القاسم الحسین بن محمد اصفہانی کہتے ہیں:
الربا الزيادة علی رأس المال لکن خصّ في الشرع بالزيادة علی وجه دُون وجه.
اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے، شرط کے بغیر اگر مقروض، دائن کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو جائز ہے، سود نہیں۔
أصفهاني، المفردات في غريب القرآن، 1: 187، دار المعرفة لبنان
ابو منصور محمد بن احمد الازہری، محمد بن مکرم بن منظور الافریقی اور محمد مرتضیٰ الحسینی الزبیدی فرماتے ہیں:
الرِّبا رَبَوان فالحرام کُلّ قَرْض يُؤْخذ به أکثر منه أو تجرُّ به مَنْفعة فحرام والذي ليس بحرام أن يَهبه الانسان يَسْتَدعي به ما هو أکثر أو يُهدي الهَدِيَّة لِيُهدَی له ما هو أکثر منها.
زیادتی دو قسم کی ہے، حرام وہ زیادتی ہے جو قرض کے ساتھ وصول کی جائے یا اس سے فائدہ (بطور شرط) حاصل کیا جائے، اور جو حرام نہیں وہ یہ ہے کہ مقروض مدت مقررہ پر اصل رقم کی ادائیگی کے بعد بطور ہبہ کچھ اضافی مال قرض خواہ کو غیر مشروط پر دے۔
ابو السعادات المبارک بن محمد الجزری لکھتے ہیں:
هو في الشرع الزيادة علی أصل المال من غير عقد تبايع.
شریعت میں رباء کا مطلب تجارتی سودے کے بغیر اصل مال پر اضافی منافع وصول کرنا ہے۔
ابن الأثير الجزري، النهاية، 2: 192، المکتبة العلمية بيروت
احمد بن علی الرازی الجصاص ابو بکر فرماتے ہیں:
هو القرض المشروط فيه الأجل و زيادة مال علی المستقرض.
جس قرض میں مدت متعین کے ساتھ قرض لینے والے کو اضافی رقم دینا مشروط ہو۔
جصاص، أحکام القرآن، 2: 189، دار احياء التراث العربي بیروت
ابو بکر محمد بن عبد اﷲ ابن عربی نے فرمایا:
الربا في اللغة هو الزيادة والمراد في الآية کل زيادة لم يقابلها عوض.
لغت میں ربا سے مراد زیادتی ہے اور آیت رباء میں اس سے مراد ہر ایسی زیادتی ہے جس کے مقابلہ میں معاوضہ نہ ہو۔
ابن عربي، أحکام القرآن، 1: 321، دار الفکر للطباعة والنشر لبنان
ابو بکر عبد اﷲ بن محمد بن ابی شیبہ الکوفی نے ایک روایت نقل کی ہے:
عن ابرهيم قال کل قرض جر منفعة فهو ربا.
ابراہیم نے فرمایا: ہر وہ قرض جو کچھ نفع کمائے وہ ربو ہے۔
ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 327، رقم: 20690، مکتبة الرشد الرياض
مذکورہ بالا تعریفات سے معلوم ہوا کہ کسی بھی فرد، ادارے یا بینک کو معینہ مدت کے لیے رقم دے کر اس پہ متعین (specified) اضافہ وصول کرنا سود ہے۔
مثلاً آپ کسی فرد، ادارے یا بینک میں ایک لاکھ (1,00000) روپے اس شرط کے ساتھ جمع کروائیں کہ وہ آپ کو ایک ماہ بعد ایک لاکھ پانچ ہزار (1,05,000) روپے دے گا یا ہر ماہ پانچ ہزار (5,000) روپے دیتا رہے لیکن اصل رقم بھی باقی رہے گی۔ اس طرح رقم پر اضافہ لینا جائز نہیں ہے۔
جائز صورت یہ ہے کہ آپ ایک لاکھ (1,00000) روپے نفع ونقصان کی شراکت کے ساتھ جمع کروائیں۔ اس صورت میں منافع زیادہ ہو تو فریقین کو فائدہ ہوتا ہے اور نقصان ہوجائے تو پھر بھی فریقین ہی برداشت کرتے ہیں یعنی کسی ایک فریق کا معاشی استحصال نہیں ہوتا۔ اسی کو مضاربہ کہتے ہیں۔
نیشنل سیونگ سنٹر میں سرمایا کاری پر ملنے والی اضافی رقم اگر پہلے سے طے شدہ تناسب پر مل رہی ہے اور اصل رقم بھی باقی ہے تو یہ جائز نہیں، اگر سرمایہ کاری مضاربہ کے اصول پر کی گئی ہے تو جائز ہے۔ مضاربہ کے احکام کا مطالعہ کرنے کے لیے ملاحظہ کیجیے:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔