Fatwa Online

قسطوں‌ پر خرید و فروخت کے شرعی احکام کیا ہیں؟

سوال نمبر:3453

آج کل کچھ دکاندار اور کمپنیاں الیکٹرونکس اور دیگر اشیاء قسطوں میں فروخت کرنے کے لئے اضافی رقم لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک فریج کی قیمت 20000 روپے ہے۔ تو وہ اس پر 35 فیصد کے حساب اضافی رقم لیتے ہیں۔ 10000 ایڈوانس اور باقی کی 2700 روپے ماہانہ 10 قسطوں‌میں لیتے ہیں۔اس طرح کل قیمت 27000 بنی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح سے کوئی چیز خریدنا جائز ہے؟؟ یا یہ اضافی رقم سود کے ذمرے میں آتی ہے؟؟ اس طرح کا کاروبار کرنا، یا اس طرح کی خریداری میں کسی کی معاونت کرنا جائز ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد فاروق انجم

  • مقام: جھنگ۔۔پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 07 مارچ 2016ء

موضوع:جدید فقہی مسائل  |  قسطوں پر خرید و فروخت

جواب:

قسطوں پر خرید و فرخت جائز ہے۔ یہ تجارت کی ایک جائز قسم ہے جس کے ناجائز ہونے کی کوئی شرعی وجہ نہیں۔ اصل میں ایک ہی سودا ہے جو نقد کی صورت میں کم قیمت پر اور قسط کی صورت میں قدرے زائد قیمت پر فروخت کنندہ اور خریدار کے ایجاب و قبول سے طے پاتا ہے۔ دونوں صورتیں چونکہ الگ الگ ہیں اور ایک میں دوسری صورت بطور شرط یا جزء شامل نہیں، لہٰذا یہ اُسی طرح جائز ہے جیسے ایک ہی منڈی کی مختلف دکانوں پر کسی شے کی قیمت میں فرق ہو سکتا ہے۔ یونہی منڈی، بازار اور پرچون کی دکان پر قیمت میں فرق ہوتا ہے، لیکن کوئی ایک سودا دوسرے سے منسلک نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر سودا مستقل اور الگ الگ ہے تو گویا یہ جائز ہے۔

ایک اشکال

عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ نَهَی رَسُولُ اﷲِ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا۔‘‘

  1. احمد بن حنبل، المسند، 2: 174، رقم: 6628، موسسة قرطبة مصر
  2. ابوداود، السنن، 3: 274، رقم: 3461، دار الفکر
  3. ترمذي، السنن، 3: 533، رقم: 1231، دار احياء التراث العربي بيروت
  4. مالک، الموطا، 2: 663، رقم: 1342، دار احياء التراث العربي مصر
  5. نسائي، السنن الکبری، 4: 43، رقم: 6228، دار الکتب العلمية بيروت

اس ارشاد مبارکہ میں ’ایک بیع میں دو سودے‘ کرنے سے مراد بسا اوقات یہ لیا جاتا ہے کہ نقد فروخت پر ایک قیمت اور اُدھار فروخت پر دوسری قیمت لینا ہے اور اس کو جواز بنا کر قسطوں پر خرید و فروخت کا عدمِ جواز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر امام ترمذی رحمہ اﷲ علیہ نے اس فرمان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے:

حَدِيثُ اَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ اَهْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ اَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ اَنْ يَقُولَ اَبِيعُکَ هَذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَةٍ وَبِنَسِيئَةٍ بِعِشْرِينَ وَلَا يُفَارِقُهُ عَلَی اَحَدِ الْبَيْعَيْنِ فَإِذَا فَارَقَهُ عَلَی اَحَدِهِمَا فَلَا بَاْسَ إِذَا کَانَتِ الْعُقْدَهُ عَلَی اَحَدٍ مِنْهُمَا.

قَالَ الشَّافِعِيُّ وَمِنْ مَعْنَی نَهْيِ النَّبِيِّ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ اَنْ يَقُولَ اَبِيعُکَ دَارِي هَذِهِ بِکَذَا عَلَی اَنْ تَبِيعَنِي غُلَامَکَ بِکَذَا فَإِذَا وَجَبَ لِي غُلَامُکَ وَجَبَت لَکَ دَارِي وَهَذَا يُفَارِقُ عَنْ بَيْعٍ بِغَيْرِ ثَمَنٍ مَعْلُومٍ وَلَا يَدْرِي کُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَی مَا وَقَعَتْ عَلَيْهِ صَفْقَتُهُ.

’’حدیث ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ حسن صحیح ہے، علماء کا اس پر عمل ہے۔ بعض علماء نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ کوئی شخص کہے میں آپ کے ہاتھ پہ یہ کپڑا نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں بیچتا ہوں اور کسی ایک سودے کو متعین کر کے جدا نہ ہو۔ اگر ایک سودے کا فیصلہ کر کے جدا ہو تو کوئی حرج نہیں۔

امام شافعی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بیع میں دو سودوں سے جو منع فرمایا اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کہے میں اپنا یہ مکان تیرے ہاتھ پر اتنے روپے میں اس شرط پر بیچتا ہوں کہ تو مجھے اپنا غلام اتنی قیمت میں فروخت کرے۔ جب تیرا غلام مجھے مل جائے گا، میرا مکان تیرا ہو جائے گا۔ یہ ایسی بیع پر علیحدگی ہے جس کی قیمت معلوم نہیں اور دو میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں میرا سودا کتنے پر طے ہوا ہے۔

ترمذی، السنن، 3: 533

امام کاسانی اس ارشاد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فقہی مؤقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ان رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم نهی عن بيعين في بيع وکذا إذا قال بعتک هٰذا العبد بالف درهم إلی سنة او بالف وخمس مائة إلی سنتين لان الثمن مجهول وقيل هو الشرطان في بيع.

وقد روي ان رسول اﷲ  صلیٰ الله عليه وآله وسلم نهی عن شرطين في بيع ولو باع شيئا بربح ده باز ده ولم يعلم المشتري راس ماله فالبيع فاسد حتی يعلم فيختار او يدع هکذا روي ابن رستم عن محمد لانه لم يعلم راس ماله کان ثمنه مجهولا وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فاذا علم ورضي به جاز البيع لان المانع من الجواز وهو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس.

’’بے شک رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سودے میں دو سودے منع فرمائے۔ یونہی جب یہ کہا میں نے تیرے ہاتھ یہ غلام سال تک ایک ہزار یا دو سال کے لئے ڈیڑھ ہزار میں بیچا کیونکہ قیمت نامعلوم ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہے ایک سودے میں دو شرطیں لگانا۔

اور روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سودے میں دو شرطوں سے منع فرمایا ہے۔ اور اگر کوئی چیز یہ کہہ کر فروخت کی کہ دس پھر دس کے منافع کے ساتھ اور خریدار کو اصل قیمت کا پتہ ہی نہیں تو یہ بیع فاسد ہے۔ جب تک قیمت معلوم کر کے اسے اختیار نہ کرے یا چھوڑ دے۔ ابن رستم نے امام محمد رحمہ اﷲ سے یہی مفہوم روایت کیا ہے۔ کیونکہ اصل قیمت کا علم ہی نہیں تو مال کی مقدار معلوم نہ قیمت اور قیمت کی جہالت سودا جائز ہونے میں رکاوٹ ہے۔ جب خریدار کو مال اور قیمت دونوں کا علم ہو گیا اور وہ اس پر راضی ہو گیا تو بیع جائز ہے۔ کیونکہ اس سودے کے جواز میں سودا کرتے وقت یہی جہالت تھی جو اسی مجلس میں ختم ہو گئی۔‘‘

علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 158، بيروت، لبنان: دار الکتاب العربي

اس تفصیل سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو گئی کہ نقد اور اُدھار کے لیے دو علیحدہ علیحدہ قیمتیں مقرر کرنے سے اس حدیث کی مخالفت نہیں ہوتی جس میں نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع سے منع فرمایا ہے۔ جب خریدار اور فروخت کنندہ، نقد اور ادھار کی وضاحت کر کے جدا ہو جائیں اور کسی ایک صورت کا تعین نہ کریں تو اس صورت میں سودا کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس میں نہ قیمت کا تعین ہوا نہ مبیع کا، تو دونوں کی لاعلمی جھگڑے کا سبب بنے گی۔ قسطوں کی تجارت میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں بیع، قیمت اور مدت، ہر ایک کا تعین بروقت ہو جاتا ہے۔ کسی قسم کی جہالت باقی نہیں رہتی۔ اس طرح جب قیمت کا تعین ہو گیا، قسطیں اور ان کی شرح بھی متعین ہو گئی تو بیع ایک ہی ہے، دو نہ ہوئے اور ممانعت ایک بیع میں دو سودے کی ہے ایک کی نہیں۔

نقد اور ادھار میں فرق کے بارے میں علامہ علاؤ الدین کاسانی فرماتے ہیں:

لامساواة بين النقد والنسيئة لان العين خير من الدين والمعجّل اکثر قيمة من الموجل.

’’نقد اور ادھار برابر نہیں، کیونکہ معین و مقرر چیز قرض سے بہتر ہے اور قیمت کی فوری ادائیگی میعادی قرض والی سے بہتر ہے‘‘۔

علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 187

 اُدھار بیچنے کی وجہ صورت میں اصل قیمت میں زیادتی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

لوشتری شيئا نسيئة لم يبعه مرابحة حتی يبيّن لان للاجل شبهة المبيع وإن لم يکن مبيعا حقيقة لانه مرغوب فيه الاتری ان الثمن قد يزاد لمکان الاجل.

’’اگر ایک چیز قرض پر خریدی، اسے فائدہ لے کر، اس وقت تک آگے نہ بیچے جب تک اس کی وضاحت نہ کر دے کیونکہ مدت، مبیع (بکاؤ مال) کے مشابہ ہے، گو حقیقت میں مبیع نہیں، اس لئے مدت کی رعایت بھی رغبت کا باعث ہوتی ہے، دیکھتے نہیں کہ مدت مقررہ کی وجہ سے کبھی قیمت بڑھ جاتی ہے‘‘۔

علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 224

یعنی اُدھار بیچنے کی صورت میں شے کی اصل قیمت میں زیادتی کرنا جائز ہے، یہ سود نہیں، تاہم ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ عائد کرنا سود کے زمرے میں آتا ہے۔ بیع التقسیط (قسطوں پر خرید و فروخت) کے لیے ضروری ہے کہ ایک ہی مجلس میں یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ خریدار نقد لے گا یا اُدھار قسطوں پر، تاکہ اسی کے حساب سے قیمت مقرّر کی جائے۔ اس شرط کے ساتھ قسطوں پر اشیاء کی تجارت کرنا اور اس تجارت میں کسی کی معاونت کرنا شرعاً جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 November, 2024 06:35:03 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3453/