جواب:
جو صورت آپ نے بیان کی ہے اس کو ناجائز قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں پائی جا رہی۔ اپنے سوال میں آپ نے جن خدشات کا اظہار کیا وہ سود، جواء یا قماربازی ہیں۔ سود کی تعریف کے مطابق وہ اضافی رقم جو معینہ مدت کے بعد اصل رقم پر دی جائے، وہ حرام ہے۔ ابو القاسم الحسین بن محمد اصفہانی سود کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
الربا الزیادة علی رأس المال لکن خصّ في الشرع بالزیادة علی وجه دُون وجه۔
ربا اصل مال پر زیادتی کو کہتے ہیں۔ لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہا جائے گا۔ بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے۔ شرط کے بغیر اگر مقروض، قرض خواہ کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو جائز ہے، سود نہیں۔
أصفهاني، المفردات في غریب القرآن، 1: 187، دار المعرفة لبنان
گویا سود وہ ہے جو اصل رقم پر اضافہ ہو۔ مذکورہ سوال میں آپ نے بیان کیا کہ دو ہزار (2000) روپے موبائل اکاؤنٹ میں برقرار رکھنے کی صورت میں بھی اصل رقم یعنی دوہزار (2000) روپےمیں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اصل رقم وہی ہے، جبکہ جو سہولیات (ٹاک ٹائم وغیرہ) دی گئیں وہ مقروض (کمپنی) نے اپنی خوشی سے بطور تحفہ فراہم کیں۔
رہا جواء یا قمار بازی کا معاملہ تو وہ بھی یہاں نہیں پایا جارہا۔ کیونکہ جوئے کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ زیادہ مال کی لالچ میں اپنے مال کو اس طرح خطرے میں ڈالنا کہ دونوں جانب مال ہو اور اس میں محنت کا دخل نہ ہو۔ حاصل یہ کہ جوئے میں معاملہ نفع وضرر کے درمیان دائر ہوتا ہے، احتمال یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت سا مال مل جائے گا، اور یہ بھی کہ کچھ نہ ملے گا۔ حضرت میرسیّد شریف جُرجانی فرماتے ہیں:
ہر وہ کھیل جس میں یہ شرط ہو کہ مغلوب (یعنی ناکام ہونے والے) کی کوئی چیز غالِب (یعنی کامیاب ہونے والے ) کو دی جائے گی، تو یہ جُوا ہے۔
جُرجانی، التّعریفات، 126
جو صورت آپ نے بیان کی ہے اس میں ایسا کوئی احتمال نہیں کہ بہت سا مال مل جائے گا یا کچھ نہیں ملے گا۔ اکاؤنٹ میں موجود رقم کے ڈوبنے کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ اکاؤنٹ ہولڈر جب چاہے اپنے اکاؤنٹ میں موجود رقم کو استعمال میں لاسکتا ہے۔ لہٰذا یہ جوا بھی نہیں بنتا۔ جب مذکورہ صورت سود اور جُوا نہیں بنتی تو اس کے عدمِ جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
انشورنس کے بارے میں مطالعہ کے لیے ملاحظہ کیجیے:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔