Fatwa Online

حاملہ کے لیے عدت اور سوگ کی مدت کتنی ہے؟

سوال نمبر:3408

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! کیا حاملہ کے لیے سوگ اور عدت دونوں کی مقدار ایک جیسی ہے؟ اگر خاوند کی وفات ساتھ ہی وضعِ حمل بھی ہو جائے تو کیا عدت کے ساتھ ہی سوگ کی مدت بھی تمام ہو جائے گی؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں!!! جزاکم اللہ خیرا۔۔

سوال پوچھنے والے کا نام: سید حیدر علی بخاری

  • مقام: اسلام آباد
  • تاریخ اشاعت: 30 جنوری 2015ء

موضوع:تعزیتِ میت

جواب:

قرآن پاک میں ہے:

وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًاج فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْکُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِيْ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ط وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌo

اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آ پہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔

البقرة، 2: 234

وَالّٰئِيْ يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَـلٰـثَةَ اَشْهُرٍ وَالّٰئِيْ لَمْ يَحِضْنَ ط وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ط وَمَنْ يَتَّقِ اﷲَ يَجْعَلْ لَّه مِنْ اَمْرِه يُسْرًاo

اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہو گی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے۔

الطلاق، 65: 4

احادیث مبارکہ میں عدت اور سوگ کے بارے میں ہے:

اَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ اَبِي سَلَمَةَ اخْبَرَتْهُ عَنْ امِّهَا امِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ انَّ امْرَاةَ مِنْ اسْلَمَ يُقَالُ لَهَا سُبَيْعَةَ کَانَتْ تَحْتَ زَوْجِهَا تُوُفِّيَ عَنْهَا وَهِيَ حُبْلَی فَخَطَبَهَا ابُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْکَکٍ فَابَتْ انْ تَنْکِحَهُ فَقَالَ وَاﷲِ مَا يَصْلُحُ انْ تَنْکِحِيهِ حَتَّی تَعْتَدِّي آخِرَ الْاجَلَيْنِ فَمَکُثَتْ قَرِيبًا مِنْ عَشْرِ لَيَالٍ ثُمَّ جَائَتْ النَّبِيَّ فَقَالَ انْکِحِي

زینب بنت ابو سلمہ کو اُن کی والدہ ماجدہ نے حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا زوجہ حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ بنو اسلم کی سبیعہ نامی ایک عورت کا خاوند فوت ہوگیا اور وہ اس وقت حاملہ تھی۔ تو ابو السنابل بن بعکک نے اُسے نکاح کا پیغام دیا تو اس نے نکاح کرنے سے انکار کردیا۔ ابو السنابل نے کہا کہ خدا کی قسم تیرے لئے نکاح کرنا اس وقت تک مناسب نہیں ہے جب تک تو بھی عدت پوری نہ کرلے۔ چنانچہ ابھی دس روز ہی گزرے تھے (کہ بچہ پیدا ہوگیا) اور وہ حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو گئی تو آپ نے فرمایا کہ تم نکاح کرلو۔

بخاري، الصحيح، 5: 2037، رقم: 5012، دار ابن کثير اليمامةَ بيروت

سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ انَّ ابَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَابْنَ عَبَّاسٍ اجْتَمَعَا عِنْدَ ابِي هُرَيْرَةَ وَهُمَا يَذْکُرَانِ الْمَرْاةَ تُنْفَسُ بَعْدَ وَفَاةَ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ عِدَّتُهَا آخِرُ الْاجَلَيْنِ وَقَالَ ابُو سَلَمَةَ قَدْ حَلَّتْ فَجَعَلَا يَتَنَازَعَانِ ذَلِکَ قَالَ فَقَالَ ابُو هُرَيْرَةَ انَا مَعَ ابْنِ اخِي يَعْنِي ابَا سَلَمَةَ فَبَعَثُوا کُرَيْبًا مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَی امِّ سَلَمَةَ يَسْالُهَا عَنْ ذَلِکَ فَجَائَهُمْ فَاخْبَرَهُمْ انَّ امَّ سَلَمَةَ قَالَتْ إِنَّ سُبَيْعَةَ الْاسْلَمِيَةَ نُفِسَتْ بَعْدَ وَفَاةَ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ وَإِنَّهَا ذَکَرَتْ ذَلِکَ لِرَسُولِ اﷲِ فَامَرَهَا انْ تَتَزَوَّجَ

سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما، حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے اس مسئلہ میں گفتگو کر رہے تھے کہ اگر کسی عورت کے شوہر کی وفات کے چند روز بعد اس کا حمل وضع ہو جائے تو آیا اس کی عدت پوری ہو گی یا نہیں؟ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: اس کی عدت وہ مدت ہے جو دو مدتوں (عدت وفات اور وضع حمل کا زمانہ) میں نسبتاً زیادہ ہو، اور ابو سلمہ رضی اﷲ عنہ کہہ رہے تھے کہ: وضع حمل کے بعد اس کی عدت پوری ہو جاتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: میں اپنے بھتیجے یعنی ابو سلمہ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ہوں۔ پھر انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے غلام کریب کو ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس یہ مسئلہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا۔ کریب نے آکر بتایا کہ حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا ہے کہ حضرت سبیعہ اسلمیہ کو اپنے شوہر کی وفات کے چند روز بعد نفاس آ گیا (یعنی بچہ پیدا ہو گیا)، انہوں نے اس کا حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے انہیں نکاح کرنے کی اجازت دے دی۔

  1. مسلم، الصحيح، 2: 1122، رقم: 1485، دار احياء التراث العربي بيروت
  2. ترمذي، السنن، 3: 499، رقم: 1194، دار احياء التراث العربي بيروت
  3. نسائي، السنن الکبري، 3: 387، رقم: 5706، دار الکتب العلميةَ بيروت
  4. ابن ابي شيبةَ، المصنف، 3: 554، رقم: 17094، مکتبةَ الرشد الرياض

قَالَتْ زَيْنَبُ دَخَلْتُ عَلَی امِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ حِينَ تُوُفِّيَ ابُوهَا ابُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ فَدَعَتْ امُّ حَبِيبَةَ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةَ خَلُوقٌ اوْ غَيْرُهُ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةَ ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا ثُمَّ قَالَتْ وَاﷲِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةَ غَيْرَ انِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَاةَ تُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ انْ تُحِدَّ عَلَي مَيتٍ فَوْقَ ثَـلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَي زَوْجٍ ارْبَعَةَ اشْهُرٍ وَعَشْرًا

حضرت زینب رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ میں حضرت اُم حبیبہ رضی اﷲ عنہا زوجہ حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ اُن کے والد ماجد حضرت ابو سفیان بن حرب کا انتقال ہوگیا تھا۔ تو حضرت اُم حبیبہ رضی اﷲ عنہا نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یاکسی اور چیز کی زردی تھی۔ پھر انہوں نے وہ خوشبو ایک لڑکی کو لگائی اور تھوڑی سی اپنے رخسار پر بھی مل لی، اور فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے خوشبو کی حاجت نہیں لیکن میں نے رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں جو اﷲ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ تین دن سے زیادہ کسی میت کا سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے اُس کا سوگ چار ماہ دس دن ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، 5: 2042، رقم: 5024
  2. مسلم، الصحيح، 2: 1123، رقم: 1486
  3. احمد بن حنبل، المسند، 6: 325، رقم: 26808، مؤسسةَ قرطبةَ مصر
  4. ابي داؤد، السنن، 2: 290، رقم: 2299، دار الفکر
  5. امام مالک، المؤطا، 2: 596، رقم: 1245، دار احياء التراث العربي مصر

قَالَتْ زَيْنَبُ فَدَخَلْتُ عَلَي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ اخُوهَا فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ ثُمَّ قَالَتْ امَا وَاﷲِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةَ غَيْرَ انِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ يَقُولُ عَلَي الْمِنْبَرِ لَا يَحِلُّ لِامْرَاةَ تُوْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ انْ تُحِدَّ عَلَي مَيتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَي زَوْجٍ ارْبَعَةَ اشْهُرٍ وَعَشْرًا

حضرت زینب رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ اُم المؤمنین زینب بنتِ حجش رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ ان کے بھائی کاانتقال ہوگیا تھا۔ انہوں نے خوشبو منگوائی اور اس میں تھوڑی سی لگاکر فرمایا: خدا کی قسم مجھے خوشبو کی حاجت تو نہیں ہے لیکن میں نے رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عورت کے لیے یہ حلال نہیں جو اﷲ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے کہ وہ چار ماہ دس دن ہے۔

  1. بخاري، الصحیح، 1: 430، رقم: 1222
  2. مسلم، الصحیح، 2: 1124، رقم: 1484

قَالَتْ زَيْنَبُ وَسَمِعْتُ امَّ سَلَمَةَ تَقُولُ جَائَتْ امْرَاةَ إِلَی رَسُولِ اﷲِفَقَالَتْ يَا رَسُولَ اﷲِ إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَقَدْ اشْتَکَتْ عَيْنُهَا افَتَکْحُلُهَا فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ لَا مَرَّتَيْنِ اوْ ثَلَاثًا کُلَّ ذَلِکَ يَقُولُ (لَا) ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اﷲِ إِنَّمَا هِيَ ارْبَعَةَ اشْهُرٍ وَعَشْرٌ وَقَدْ کَانَتْ إِحْدَاکُنَّ فِي الْجَاهِلِيَةَ تَرْمِي بِالْبَعْرَةَ عَلَی رَأْسِ الْحَوْلِ

حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (اپنی والدہ ماجدہ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک عورت رسول اﷲ صلیٰ اللہ عیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئی: یارسول اﷲ صلیٰ اللہ عیہ وآلہ وسلم! میری بیٹی کا خاوند فوت ہوگیا ہے اور اس کی آنکھ میں تکلیف ہے تو کیا ہم اسے سرمہ لگادیں؟ تو رسول اﷲنے دو تین مرتبہ انکار فرمایا اور ہر دفعہ آپ فرماتے کہ نہیں۔ پھر رسول اﷲ نے فرمایا کہ یہ سوگ چار ماہ دس دن ہے۔ حالانکہ زمانہ جاہلیت کے اندر تم میں سے عورت ایک سال کے بعد مینگنیاں پھینکتی تھی۔

  1. بخاري، الصحيح، 5: 2042، رقم: 5024
  2. مسلم، الصحيح، 2: 1124، رقم: 1488
  3. ابي داود، السنن، 2: 290، رقم: 2299
  4. ترمذي، السنن، 3: 501، رقم: 1197
  5. امام مالک، الموطا، 2: 597، رقم: 1247

محدثینِ کرام نے مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں لکھا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

دور جاہلیت میں بیوہ مکمل ایک سال اس طرح عدت گزارتی کہ سب سے الگ گندے، تاریک اور تنگ کمرے میں رہتی۔ سال بھر نہ صفائی پانی استعمال کرتی، نہ لباس بدلتی، نہ اہل خانہ کے ساتھ ان کے برتنوں میں کھانا کھاتی، نہ بستر بدلتی، نہ ناخن ترشواتی، نہ ہاتھ منہ دھوتی اور نہ ہی غسل کرتی۔ سال بھر اس طرح گذارتی۔ پھر ایک تقریب منعقد ہوتی جس میں وہ کسی مرغی یا پرندے پر ہاتھ پھرتی تو وہ اس کے زہر سے مر جاتا اور اس کے بال جھڑ جاتے۔ اس کے بعد اونٹ یا کسی اور جانور کی مینگنیاں لاتے وہ مینگنیاں پھینکتی ہوئی باہر آتی۔

  1. عيني، عمدةَ القاري، 21: 3، 4، دار احياء التراث العربي بيروت
  2. عسقلاني، فتح الباري، 9: 489، دار المعرفةَ بيروت
  3. النووي، شرح صحيح مسلم، 10: 114، دار احياء التراث العربي بيروت

عَنْ حَفْصَةَ عَنْ امِّ عَطِيَةَ قَالَتْ کُنَّا نُنْهَی انْ نُحِدَّ عَلَی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ ارْبَعَةَ اشْهُرٍ وَعَشْرًا وَلَا نَکْتَحِلَ وَلَا نَطَّيَبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةَ مِنْ کُسْتِ اظْفَارٍ وَکُنَّا نُنْهَی عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ

حفصہ بنت سیرین نے حضرت ام عطیہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ ہمیں منع فرمایا گیا کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کریں مگر خاوند کا چار مہینے دس دن تک۔ سوگ کے دوران نہ سرمہ لگائیں، نہ خوشبو استعمال کریں اور نہ ہی رنگے ہوئے کپڑے پہنیں، سوائے پہلے سے رنگے ہوئے کپڑے۔  ہمیں یہ اجازت ملی کہ پاکی کی حالت میں جب ہم میں سے کوئی حیض سے فارغ ہو تو اظفار کی عود کا استعمال کرلے اور ہمیں جنازے کے پیچھے جانے سے منع فرمایا گیا۔

  1. بخاري، الصحیح، 5: 2043، رقم: 5027
  2. مسلم، الصحیح، 2: 1128، رقم: 938

فقہاء کرام بیان کرتے ہیں:

عدةَ الحامل وضع الحمل لقوله تعالي {وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ} اطلقها فشمل الحرةَ والامةَ المسلمةَ والکتابيةَ مطلقةَ او متارکةَ في النکاح الفاسد او وطء بشبهةَ والمتوفي عنها زوجها لاطلاق الآيةَ

وقال ابن مسعود ص من شآء باهلته ان سورةَ النساء القصري نزلت بعد التي في البقرةَ يرید بالقصری {یٰـاَيُهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ} وبالطولی {وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ} الآیةَ وفي روایةَ من شآء لاعنته وفي روایةَ حالفته وکانوا اذا اختلفوا في امر یقولون لعنةَ اﷲ علی الکاذب منا قالوا وهي مشروعةَ في زماننا کما في غایةَ البیان وفتح القدیر

وقال عمر لو وضعت وزوجها علی سریره لا نقضت عدتها ویحل لها ان تتزوج عن علي و ابن عباس رضي اﷲ عنهم تعتد الحامل المتوفي عنها زوجها بابعد الاجلین یعني لا بد من وضع الحمل ومضي اربعةَ اشهر وعشر... قال في المحیط علي کرم اﷲ وجهه تعتد بابعد الاجلین وهما الاشهر و وضع الحمل

حاملہ کی عدت بچے کی پیدائش ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ یہ مطلق ہے۔ سو اس میں آزاد،  باندی، مسلمان، کتابی، مطلقہ، بیوہ، نکاح فاسد یا وطی بالشبہ کی صورت میں الگ کی گئی سب عورتیں شامل ہیں۔ کیونکہ آیت مطلق ہے۔

حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: جو چاہے میں اس سے مباہلہ کرتا ہوں کہ چھوٹی سورۃ النسآء یعنی سورۃ طلاق، سورۃ بقرہ کے حکم کے بعد نازل ہوئی ہے (یعنی سورہ بقرہ میں بیوہ کی عدت جو چار ماہ دس دن مذکور ہے اس سے حاملہ کی عدت مستثنی ہے کہ اس کی عدت وضع حمل یعنی بچے کی پیدائش ہے)۔ ایک روایت میں ہے جو چاہے میں اس سے لعان کر سکتا ہوں۔ ایک روایت میں ہے حلف اٹھاتا ہوں۔ جب لوگ کسی بات میں اختلاف کرتے تو کہتے ہم میں سے جھوٹے پر اﷲ کی لعنت۔ علماء نے کہا ہمارے زمانہ میں یہ (تحالف) جائز ہے۔ جیسا کہ غایۃ البیان اور فتح القدیر میں ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر خاوند کی میت چارپائی یا پھٹے پر پڑی ہو اور بیوہ کا بچہ پیدا ہو جائے تو بھی عدت ختم اور اس بی بی کا کسی اور سے نکاح کرنا جائز ہے۔ حضرت علی اور ابن عباس رضي اﷲ عنہم سے روایت ہے کہ حاملہ بیوہ دُور والی(طویل) عدت گذارے یعنی وضع حمل (بچے کی پیدائش) اور چار ماہ دس دن بھی گذارے۔ امام سرخسی نے محیط میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا قول نقل کیا ہے کہ چار ماہ دس دن اور وضع حمل میں سے جو زیادہ ہو وہ عدت گذارے۔

ابن نجیم، البحرالرائق، 4: 145، دار المعرفةَ بیروت

مذکورہ بالا عبارت البحرالرائق کی ہے لیکن الجامع الصغیر، المبسوط، الہدایۃ اور فتح القدیر میں بھی یہی موقف ہے۔

مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے قوی موقف یہی ہے کہ حاملہ بیوہ کی عدت بھی وضع حمل ہی ہے۔ جیسا کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے، سبیعہ نامی عورت کو شوہر فوت ہونے کے چند روز بعد ہی وضع حمل ہونے پر نکاح کی اجازت مل گئی تھی۔ جب عورت نکاح کر سکتی ہے تو پھر نئے شوہر کے لئے زیب وزینت بھی کر سکتی ہے۔ چونکہ شرعاً سوگ سے مراد زیب وزینت ترک کرنا ہے۔ لہٰذا حاملہ بیوہ کا سوگ بھی عدت کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 22 November, 2024 04:14:56 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3408/