جواب:
دف کی شرعی حیثیت درج ذیل ہے:
عَنْ عَائِشَةَ رضی اﷲ عنها اَنَّ اَبَا بَکْرٍ دَخَلَ عَلَیْها وَعِنْدَهَا جَارِیَتَانِ فِي اَیَّامِ مِنًی تُغَنِّیَانِ وَتُدَفِّفَانِ وَتَضْرِبَانِ وَالنَّبِيُّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم مُتَغَشٍّ بِثَوْبِهِ فَانْتَهَرَهُمَا اَبُو بَکْرٍ فَکَشَفَ النَّبِيُّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم عَنْ وَجْهِهِ فَقَالَ دَعْهُمَا یَا اَبَا بَکْرٍ فَإِنَّهَا اَیَّامُ عِیدٍ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ اَیَّامُ مِنًی وَقَالَتْ عَائِشَةُ رضی اﷲ عنها رَاَیْتُ النَّبِيَّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم یَسْتُرُنِي وَاَنَا اَنْظُرُ إِلَی الْحَبَشَةِ وَهُمْ یَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ فَزَجَرَهُمْ عُمَرُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم دَعْهُمْ أَمْنًا بَنِي اَرْفِدَةَ یَعْنِي مِنْ الْاَمْنِ
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ہاں تشریف لائے۔ آپ کے پاس عید کے دنوں دو لڑکیاں گا رہی تھیں، دف بجا رہی تھیں اور پاؤں مار رہی تھیں۔ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کپڑا اوڑھ کر آرام فرما تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لڑکیوں کو ڈانٹا، تو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چہرہ انور سے کپڑا ہٹا کر فرمایا: اے ابوبکر! ان کو چھوڑ دو (جو کر رہی ہیں کرنے دو) یہ عید کے اور حج کے دن ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کپڑے میں ڈھانپ رکھا تھا اور میں حبشیوں کو مسجد میں کھیلتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ حضرت عمر نے انہیں ڈانٹا تو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہیں نہ روکو۔ اے بنی ارفدہ! تم تسلی سے اپنا کام کرتے رہو۔
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَکْوَانَ قَالَ قَالَتِ الرُّبَیِّعُ بِنْتُ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَائَ جَاءَ النَّبِيُّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم فَدَخَلَ حِینَ بُنِيَ عَلَيَّ فَجَلَسَ عَلَی فِرَاشِي کَمَجْلِسِکَ مِنِّي فَجَعَلَتْ جُوَیْرِیَاتٌ لَنَا یَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ وَیَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِي یَوْمَ بَدْرٍ إِذْ قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ وَفِینَا نَبِیٌّ یَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَالَ دَعِي هَذِهِ وَقُولِي بِالَّذِي کُنْتِ تَقُولِینَ
خالد بن ذکوان نے حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء سے روایت کی ہے جب میری رخصتی ہوئی تو حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور اس طرح میرے بستر پر آکر جلوہ افروز ہوئے جیسے آپ بیٹھے ہیں۔ تو کچھ لڑکیاں دف بجا کر اپنے ان بزرگوں کے کارنامے بیان کررہی تھیں جو غزوہ بدر میں جامِ شہادت نوش فرما گئے تھے۔ جب ان میں سے ایک لڑکی نے کہا: اور ہم میں ایسے نبی بھی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں، تو حضور نے فرمایایہ بات چھوڑو، وہی کہو جو تم کہہ رہی تھیں۔
بخاري، الصحیح، 5: 1976، رقم: 4852
عَنْ عَائِشَةَ رضی اﷲ عنها اَنَّهَا زَفَّتِ امْرَاَة إِلَی رَجُلٍ مِنَ الْاَنْصَارِ فَقَالَ نَبِيُّ اﷲِصلیٰ الله علیه وآله وسلم یَا عَائِشَةُ مَا کَانَ مَعَکُمْ لَهْوٌ فَإِنَّ الْاَنْصَارَ یُعْجِبُهُمْ اللَّهْوُ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک عورت کو نکاح کے بعد دلہن بنا کر ایک انصاری کے ہاں بھیجا۔ تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! تمہارے پاس کھیل کود کا بندوبست نہیں؟ انصار کو کھیل کود پسند ہے۔
بخاري، الصحیح، 5: 1980، رقم: 4867
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ الْجُمَحِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله علیه وآله وسلم فَصْلُ مَا بَیْنَ الْحَرَامِ وَالْحَلَالِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ
حضرت محمد بن حاطب جمحی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حلال و حرام کے درمیان فرق دف بجانا اور گانا ہے (یا جہاں یہ کچھ ہو سمجھو حلال یعنی نکاح وشادی ہے۔ اگر نہیں اور چپکے سے معاملہ ہو رہا ہے تو بدکاری ہے)۔
ترمذي، السنن، 3: 398، رقم: 1088، دار احیاء التراث العربي بیروت
عَنْ عَائِشَةَ رضی اﷲ عنها قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله علیه وآله وسلم اَعْلِنُوا هَذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوا عَلَیْهِ بِالدُّفُوفِ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نکاح کی تشہیر کرو، مسجدوں میں نکاح کرو اور نکاح (شادی) پر دف بجاؤ!
ترمذي، السنن، 3: 398، رقم: 1089
علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں:
ان احادیث مبارکہ سے ایک بات یہ ثابت ہوئی کہ شارع علیہ السلام کے سامنے خوشی کے موقع پر دف بجایا، گانا گایا اور کھیل کھیلا گیا۔ یعنی جو حلال و حرام کو بیان فرمانے والے ہیں اْن کے سامنے یہ امور بجا لائے گئے مگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہ فرمایا۔ اسی طرح دف بجا کر اور جائز و مباح گانا گا کر اعلان نکاح کیاگیا تاکہ نکاح اور چھپ چھپا کر بدکاری کرنے میں فرق ہو جائے۔
مزید لکھتے ہیں:
یہ جائز امور میں سے ہے۔ لہٰذا ان پر انکار نہ کیا جائے۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ بیاہ شادی کے علاوہ آپ دف بجانے کو مکروہ سمجھتے ہیں؟ جیسے عورت یا بچہ گھر میں دف بجائے، انہوں نے کہا کوئی کراہت نہیں۔
(اور بخاری کی روایت کے مطابق) عورتوں کا اجنبی مردوں کو دیکھنے کا جواز ملتا ہے اس لئے کہ عورتوں کا اجنبی مردوں کو دیکھنا صرف اس صورت میں مکروہ ہے جب وہ ان کے حسن و جمال پر نظر رکھیں اور اس سے لذت اندوز ہوں۔ عورت کا اجنبی مرد کے چہرے کو شہوت کی نیت سے دیکھنا ہو تو بالاتفاق حرام ہے۔ ’’وان کان بغیر شهوة فالاصح عدم التحریم‘‘ اور اگر یہ دیکھنا شہوت کے بغیر ہو تو صحیح تر یہی ہے کہ یہ حرام نہیں۔
بعض حضرات نے یہ واقعات ’’مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں‘‘ [النور، 24: 31] کے نزول سے پہلے کے ہیں یا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بالغ ہونے سے پہلے کے ہیں۔ یہ بات درست نہیں کیونکہ ابن حبان کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ وفد حبشہ کی مدینہ منورہ میں آمد کے وقت ہوا اور وفد حبشہ سات ہجری میں مدینہ منورہ آیا تھا اور اس وقت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک پندرہ سال تھی۔
علامه عیني، عمدة القادری، 6: 271، دار احیاء التراث العربي بیروت
عبد الرحمن الجزیری لکھتے ہیں:
مذہب مختار یہ ہے کہ دف اور ساز بجانا جس میں آداب کے خلاف کوئی بات نہ ہو، بلا کراہت جائز ہے جب تک یہ خرابیوں اور بیہودگیوں پر مشتمل نہ ہو (مثلاً بیاہ شادی کے مواقع پر اجنبی عورتوں کا بن ٹھن کا باہر نکلنا، مردوں اور باراتیوں کے سامنے پُھدکنا، مٹکنا وغیرہ) اگر کوئی ایسی بات ہوگی تو حرام ہے۔
عبدالرحمن الجزیری، کتاب الفقه علی المذاهب الاربعه، 4: 9، دار احیاء التراث العربي بیروت لبنان
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ کے علاوہ بھی بہت سی روایات ہیں جن میں دف بجانے کی اجازت ہے۔ لہٰذا دف بجانا جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔