Fatwa Online

کیا عدالت خاوند کی رضا مندی کے بغیر خلع کا حکم جاری کر سکتی ہے؟

سوال نمبر:2934

السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ میں اپنی ازدواجی زندگی کے لیے کوشاں رہا ایک لڑکی کے ساتھ روابط قائم ہوئے روابط میں دینی باتوں اور دینداری قائم رکھنے کی بنیاد پر ارادہ شادی کیا آخر الامر کورٹ میں باہمی رضا مندی سے نکاح کرانا طے پایا۔ کورٹ میں گواہوں کے سامنے نکاح کیا اور گواہوں کے دستخط حاصل کیے اور اپنی بیوی کو اپنے گھر لے گیا اور کچھ گھنٹے محبت سے آپس میں گزارے اور خلوت کی۔ بعد وہ بیوی کو سسرال کے گھر پہنچایا ایک دو دن میں سسرال والے میرے گھر آئے اور تحفہ تحائف مٹھایاں لے کر آئے۔ ویسے ہی میرے والد کے گھر سے فیملی بھی ان کے گھر گئی اور تحفہ تحائف لیے دیئے اور اس نکاح عمل سے خوش ہوئے اور سراہا۔ دو، چار دن کے بعد لڑکی کے والد نے خلع کے لیے کہاں جب کہ میں شوہر آصف علی خلع سے انکار کرتا رہا اس معاملہ کو سسرال والے زبردستی کے طور سے خلع کرانا چاہتے ہیں۔ طلب حل سوال یہ ہے کہ یہ خلع کرانا جائز ہے یا نہیں‌ اگر کسی انتظامیہ صورت میں خلع کرایا گیا تو اس صورت میں شرعی فتوی کیا ہو گا۔ اس نکاح کے بعد جب لڑکی کے والد صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے اپنی بیٹی کو مبارکباد کا میسج بھی بھیجا (جو نازش نے مجھے بھی وہ میسج بھیج دیا) اس میں‌ یہ لکھا تھا کہ (مبارک ہو اور باقی کے معاملات اپنی امی سے مشورہ کر کے اچھے طریقے سے طے کر لینا) اور مجھے بھی اس نکاح کے بعد دوبارہ فون کر کے خوشی کا اظہار کیا اور دعائیں دی۔ (خاندانی اعتبار سے لڑکی شیخ زادی ہےاور میں میمن برادری سے تعلق رکھتا ہوں جو دونوں ہی خاندان رتبے اور مالی حساب سے ہم پلہ ہیں اور عام طور پر ان دونوں خاندانوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہوتی رہتی ہیں اور رشتہ دینے لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا جاتی۔) لڑکی خود بھی نمازی اور دین دار ہے اور لڑکا بھی۔ اور اسی دین داری کی وجہ سے شادی کی۔ دونوں کا خاندان مالی اعتبار سے اور دینی اعتبار سے برابر ہیں۔ اور یہ میری پہلی شادی ہے جو میں کسی صورت ختم نہیں کرنا چاہتا۔ مندرجہ بالا تفصیل کو ملحوظ رکھتے ہوئے وضاحت فرمائیں کہ جب باہمی رضامندی سے لڑکے اور لڑکی کا کورٹ میں نکاح ہو، جس پر لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کو مبارک باد بھی دی ہو، دونوں خاندان مالی اور دینی اعتبار سے برابر بھی ہوں اور لڑکا خلع بھی نہ دینا چاہتا ہو اور کوئی خلع کی شرعی وجہ بھی نہ ہو تو ان سب کے باوجود لڑکی والوں کا اپنے طور پر عدالت سے خلع کے لیے رجوع کرنا دینی اعتبار سے کیسا ہے؟ اور اگر عدالت بغیر شوہر کی رضامندی کے محض اپنے طور پر خلع کا فیصلہ یک طرف طور پر جاری کر دے تو یہ فیصلہ شرعا معتبر ہو گا یا نہیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام: آصف

  • مقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 30 جنوری 2014ء

موضوع:خلع کے احکام  |  معاملات

جواب:

اگر دو گواہوں کی موجودگی میں عاقل، بالغ لڑکا، لڑکی رضامندی سے نکاح کر لیں تو پھر جائز نہیں ہے کہ بغیر کسی شرعی عذر کے ان کے درمیان علیحدگی کا مطالبہ کیا جائے۔ محض ضد اور انا کی خاطر اس طرح لڑکے لڑکی کی زندگی تباہ نہیں کرنی چاہیے۔ لہذا بغیرکسی وجہ کے لڑکی کا نکاح بذریعہ عدالت ختم نہیں کروایا جا سکتا، شرعا جا ئز نہیں ہے۔ ہاں اگر لڑکا کسی قسم کے حقوق پورے نہیں کرتا تو پھر لڑکی کو اجازت ہوتی ہے کہ لڑکے سے بذریعہ عدالت خلع لے یا پھر لڑکے کے ظلم وستم سے بچنے کی خاطر بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح کروا لے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 21 November, 2024 09:36:10 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/2934/