جواب:
رہبانیت سے مراد، بے رغبتی اور کنارہ کشی ہے۔ اصطلاحاً نفسانی لذّات سے دستبردار ہونا اور دنیاوی فرائض سے کنارہ کشی کی راہ اپنانا، سماجی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے جنگلوں اور ویرانوں کا رخ کرنا، بیوی، بچوں اور معاشرتی زندگی کی دیگر مصروفیات سے منہ موڑ کر غاروں کی خلوتوں اور جنگلوں کی تنہائیوں میں ڈیرہ لگانا اور وہیں رہ کر کثرتِ عبادت و مجاہدہ بلکہ نفس کشی کے ذریعے وصالِ حق کی جستجو کرنا رہبانیت ہے۔ قرآن کی رو سے یہ طرزِ زندگی، حق کے متلاشیوں نے خود اختیار کیا تھا، ان پر فرض نہیں کیا گیا تھا۔ ارشاد ربانی ہے :
وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ.
’’اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لئے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے (شروع کی تھی)۔‘‘
الحديد، 57 : 27
اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں، جیسا کہ ایک حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا رَهْبَانِيَةُ فِی الاِسْلَامِ.
’’اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔‘‘
1. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 18 : 87
2. فتح الباری، 9 : 111
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی زبانِ حال سے پکار پکار کر پوری امت کو یہ درس دے رہا ہے کہ اسلام جیسا مکمل اور جامع نظامِ حیات مل جانے کے بعد اس کے پیرو کاروں کو رہبانیت جیسی بے جا مشقتوں کو برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ کتاب و سنت کی اتباع کے ذریعے اس دنیا میں رہ کر کاروبارِ زندگی کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے قربِ الٰہی کی منزل پا سکتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُO
’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گیo‘‘
النور، 24 : 37
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔