Fatwa Online

افطاری قبل از آذان کرنا مسنون ہے یا بعد از آذان؟

سوال نمبر:2705

السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ افطاری میں کھجور وغیرہ افطاری کی دعا (اللہم انی لک صمت۔۔۔) والی دعا پڑھنے سے قبل کھانا چاہئے یا مذکورہ دعا پڑھنے کے بعد۔ مسنون طریقہ بحوالہ جواب عنایت فرمائیں اسی طرح افطاری قبل از آذان کرنا مسنون ہے یا بعد از آذان۔

سوال پوچھنے والے کا نام: مدثر

  • مقام: انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 22 اگست 2013ء

موضوع:عبادات  |  روزہ  |  سحر و افطار کے احکام

جواب:

قرآن پاک میں ہے :

 وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّيْلِ.

البقرة، 2 : 187

اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو،

احادیث مبارکہ میں ہے :

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَا هُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَا هُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ.

عاصم بن عمر بن خطاب، ان کے والد محترم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رات اس طرف سے آ رہی ہو اور دن اس طرف سے جا رہا ہو اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار روزہ افطار کرے۔

  1. بخاری، الصحیح، 2 : 691، رقم : 1853، دار ابن کثیر الیمامۃ بیروت
  2. مسلم، الصحیح، 2 : 772، رقم : 1100، دار احیاء التراث العربی بیروت
  3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 48، رقم : 338، مؤسسۃ قرطبۃ مصر
  4. بزار، المسند، 1 : 384، رقم : 260، مؤسسۃ علوم القرآن مکتبۃ بیروت المدینۃ
  5. ابی یعلی، المسند، 1 : 206، رقم : 240، دار المامون اللتراث دمشق
  6. ابن حزیمۃ، الصحیح، 3 : 273، رقم 2058، المکتب الاسلامی بیروت
  7. ابن حبان، الصحیح، 8 : 280، رقم : 3513، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت
  8. عبد الرزاق، المصنف، 4 : 227، رقم : 7595، المکتب الاسلامی بیروت
  9. ابی عوانۃ، المسند، 2 : 186، رقم : 2785، دار المعرفۃ بیروت
  10. حمیدی المسند، 1 : 12، رقم : 20، دار الکتب العلمیۃ مکتبۃ المتنبی بیروت، القاہرۃ
  11. نسائی، السنن الکبری، 2 : 252، رقم : 3310، دار الکتب العلمیۃ بیروت
  12. بیہقی، السنن الکبری، 4 : 216، رقم : 7794، مکتبۃ دار الباز مکۃ المکرمۃ

ایک اور حدیث پاک میں ہے :

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَهُوَ صَائِمٌ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ قَالَ لِبَعْضِ القَوْمِ: يَا فُلاَنُ قُمْ فَاجْدَحْ لَنَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَمْسَيْتَ؟ قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَوْ أَمْسَيْتَ؟ قَالَ: انْزِلْ، فَاجْدَحْ لَنَا، قَالَ: إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا، قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا، فَنَزَلَ فَجَدَحَ لَهُمْ، فَشَرِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ.

حضرت عبد اللہ بن ابو اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب سورج غروب ہو گیا تو آپ نے ایک آدمی سے فرمایا : اے فلاں ! اٹھو اور ہمارے لیے ستو گھولو۔ عرض گزار ہوا کہ یا رسول اللہ ! شام ہونے دیجئے۔ فرمایا کہ اترو اور ہمارے لیے ستو بناؤ۔ عرض کی کہ یا رسول اللہ ! شام تو ہو جائے۔ فرمایا کہ اترو اور ہمارے لیے ستو گھولو۔ عرض گزار ہوا کہ ابھی تو دن ہے۔ فرمایا کہ اترو اور ہمارے لیے ستو بناؤ۔ پس وہ اترا اور ان کے لیے ستو بنائے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمائے پھر فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات ادھر سے آ رہی ہے تو روزہ دار روزہ افطار کرے۔

  1. بخاری، الصحیح، 2 : 691، رقم 1854
  2. مسلم، الصحیح، 2 : 773، رقم : 1101
  3. احمد بن حنبل، 4 : 382،  رقم : 19432
  4. ابی داؤد، السنن، 2 : 305، رقم : 2352
  5. بزار، المسند، 8 : 264، رقم : 3325
  6. ابن حبان، الصحیح، 8 : 278، رقم : 3511

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا روزہ افطار کرنے کا وقت غروب آفتاب ہے۔ جونہی غروب آفتاب ہو روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ حدیث مبارکہ میں ہے۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الفِطْرَ.

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگ ہمیشہ خیر وخوبی سے رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔

  1. بخاری، الصحیح، 2 : 692، رقم : 1856
  2. مسلم، الصحیح، 2 : 771، رقم : 1098
  3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 331
  4. ترمذی، السنن، 3 : 82، رقم : 699، دار احیاء التراث العربی بیروت
  5. ابن ماجہ نے یہ حدیث حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بیان کی ہے السنن، 1 : 542، رقم : 1698، دار الفکر بیروت
  6. امام مالک، الموطا، 1 : 288، رقم : 624، دار احیاء التراث العربی، مصر
  7. دارمی، السنن، 2 : 12، رقم : 1699، دار الکتاب العربی بیروت
  8. ابو یعلی، المسند، 13 : 501، رقم : 7511
  9. ابن خزیمۃ، الصحیح، 3 : 274، رقم : 2059
  10. ابن حبان، الصحیح، 8 : 273، رقم : 3502
  11. شافعی، المسند، 1 : 104، دار الکتب العلمیۃ بیروت
  12. عبد الرزاق، المصنف، 4 : 226، رقم : 7592
  13. ابی عوانۃ، المسند، 2 : 186، رقم : 2786
  14. طبرانی، المعجم الکبیر، 6 : 139، رقم : 5768، مکتبۃ الزھراء الموصل
  15. بیہقی، السنن الکبری، 4 : 237، رقم : 7907

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے :

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لاَ يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لأَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى يُؤَخِّرُونَ.

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود ونصاری دیر کیا کرتے ہیں۔

  1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 450، رقم : 9809
  2. ابی داؤد، السنن، 2 : 305، رقم : 2353
  3. نسائی، السنن الکبری، 2 : 253، رقم : 3313
  4. حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 1 : 596، رقم : 1573، دار الکتب العلمیۃ بیروت
  5. ابن خزیمۃ، الصحیح، 3 : 275، رقم : 2060
  6. ابن حبان، الصحیح، 8 : 273، رقم : 3503
  7. ابن ابی شیبۃ، 2 : 277، رقم : 8944

جیسا کہ پہلے یہ بھی ذکر ہو چکا ہے کہ روزہ افطار کرنے کا وقت غروب آفتاب کے بعد ہے مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا جونہی وقت شروع ہو جائے روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔

آئیے اب دیکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ افطار کس طرح فرماتے تھے۔ حدیث مبارکہ میں ہے :

عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ.

حضرت معاذ بن زہرہ کو یہ خبر پہنچی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب افطار فرماتے تو کہتے۔ اے اللہ ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا۔

  1. ابی داؤد، السنن، 2 : 306، رقم 2358
  2. ابن ابی شیبۃ نے یہی حدیث مبارکہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت سے نقل کی ہے، المصنف، 2 : 344، رقم : 9744

عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ عَمِّهَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ صَائِمًا فَلْيُفْطِرْ عَلَى التَّمْرِ فَإِنْ لَمْ يَجِدِ التَّمْرَ فَعَلَى الْمَاءِ فَإِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ.

حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو چاہیے کہ کھجور سے افطار کرے اگر کھجور میسر نہ آئے تو پانی سے کیونکہ پانی پاک کرنے والا ہے۔

  1. ابی داؤد، السنن، 2 : 305، رقم : 2355
  2. امام حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 1 : 597، رقم : 1575
  3. ابن خزیمۃ، الصحیح، 3 : 278، رقم : 2067

حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِىُّ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْطِرُ عَلَى رُطَبَاتٍ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّىَ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَعَلَى تَمَرَاتٍ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ.

ثابت بنانی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھنے سے پہلے تر کھجوروں کےساتھ روزہ افطار فرماتے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خشک کھجوروں سے۔ یہ بھی نہ ہوتا تو پانی کے چند گھونٹ پی لیا کرتے۔

  1. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 164، رقم 12698
  2. ابی داؤد، السنن، 2 : 306، رقم : 2356
  3. امام حاکم المستدرک علی الصحیحین، 1 : 597
  4. دار قطنی، السنن، 2 : 185، رقم : 24، دار المعرفۃ بیروت

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غروب آفتاب کے فورا بعد روزہ افطار فرماتے تھے۔ کھجور ہوتی تو کھجور کےساتھ نہیں تو پانی کے ساتھ روزہ افطار فرماتے۔ باقی رہا مسئلہ دعا کا مروجہ دعا جو ہم مانگتے ہیں یہ تو نہیں لیکن یہ بھی اس میں چند الفاظ کا اضافہ ہے جو حضرت معاذ نے روایت کی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 19 April, 2024 02:36:50 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/2705/