جواب:
قرآن وحدیث سے یا اکابر اولیاء کرام کے افعال و اقوال سے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اگر دم کرنیوالا اس دم کا ہدیہ نہ لے گا تو سائل کی پریشانی دم کرنے والے پر منتقل ہو جائے گی، یہ جہالت اور دھوکہ فراڈ ہے۔ عوام سے روپے پیسے بٹورنے کا ایک بہانہ ہے۔
بعض شیطانی قوتیں ہر وقت یہی سوچتی اور منصوبہ بندی کرنے میں مصروف رہتی ہیں کہ اختلافات و تعصبات کی ماری ہوئی اس امت کو کہاں کہاں مذہبی، سیاسی اور مسلکی تنازعات میں الجھانے کے امکانات ہیں۔ چنانچہ وہ مذہب و مسلک کے نام پر اور کبھی سیاست و ثقافت کے نام پر صرف عوام ہی نہیں بلکہ نام نہاد خواص کو بھی گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جھوٹے پروپیگنڈا سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دیکھاتے ہیں۔
دنیا میں موت و حیات اور صحت و بیماری کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ بیماری بھی اللہ ہی پیدا کرتا ہے اور صحت و شفاء بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ اُسی نے ہمیں دواء و علاج کا حکم دیا ہے اور اُسی نے دواؤں میں اثر رکھا ہے۔ جس طرح دواؤں میں شفاء کا اثر رکھا ہے اسی طرح دُعاء اور دم درود میں بھی شفاء کا اثر رکھا ہے۔ دواؤں اور دعاؤں میں وہ چاہے تو شفاء ہے نہ چاہے تو کچھ نہیں۔ ہر دواء میں ہر وقت ہر ایک کیلیے شفاء ہی ہوتی تو ہسپتالوں سے علاج کے بعد شفایاب ہو کر ہی نکلتا، کسی کی میت گھر نہ پہنچتی۔ یہی حال دم درود اور جھاڑ پھونک کا ہے۔ جیسے صحیح تشخیص کے بعد معیاری دواؤں کے استعمال سے امید کی جا سکتی ہے کہ مریض شفایاب ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نام و کلام سے کسی بیمار کو کسی بھی بیماری سے شفایاب ہونے کے لیے قرآن و حدیث میں موجود پاک کلام سے جھاڑ پھونک یعنی دم کرنے سے مریض کے شفایاب ہونے کی قوی امید کی جا سکتی ہے۔ شفاء دینا، نہ دینا اس کا کام ہے۔ چارہ علاج کرنا ہمارا کام ہے۔ جیسے طبی طریقہ ہائے علاج اختیار کرنے میں کوئی کسی کو طعن و طنز نہیں کرتا۔ اللہ کے نام و کلام سے دم کرنے کے طریقہ علاج پر زبان طعن و تشنیع دراز کیوں کی جائے؟
اچھے بُرے کلمات میں اثر کا کون انکار کر سکتا ہے؟ جَزاکَ ﷲ خَيْرًا، السَّلَامُ عَلَيْکُمْ بھی کلام ہے جس کے سننے والے کہنے والے پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔ لعنتی، خبیث، شیطان بھی کلام ہے جس کے سننے والے پر بُرے اثراث مرتب ہوتے ہیں۔ یونہی کسی بیمار پر کلماتِ طیّبات جن کا معنٰی و مفہوم بھی جانتا ہے جن میں کفر و شرک کا مفہوم بھی نہیں پایا جاتا۔ اگر پڑھ کر کسی بیمار کو جھاڑا جائے۔ پانی دودھ وغیرہ پر دم کر کے اُسے استعمال کیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ اس میں کونسا کفر و شرک پایا جاتا ہے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور انبیاء و اولیاء کا طریقہ حقہ ہے۔ پھر اس کے خلاف محاذ آرائی اور مخالفت فی سبیل اللہ فتنہ و فساد نہیں تو کیا ہے؟ یہ جہالت و تعصب نہیں تو کیا ہے؟ اسے بدعت و شرک کہا جائے تو ہمیں بتایا جائے کہ پھر توحید و سنت کیا ہے؟ اس مضمون میں اسی کی تشریح و توضیح کی گئی ہے۔
عربی میں تعویذ کو رُقْيَةُ کہا جاتا ہے، ابن اثیر الجوزی اس کا لغوی معنیٰ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
الرُّقْيَةُ العُوذة الّتی يُرْقیٰ بها صاحبُ الآفةِ کالحُمَّی والصَّرَع وغير ذلک من الآفات، و قد جاء فی بعض الأَحاديث جوازُها و فی بعضِها النَّهْيُ عنها.
رُقْيَۃُ‘‘وہ دُعا جس سے مصیبت زدہ کو جھاڑا جائے۔ مثلاً بخار، بےہوشی وغیرہ اور آفات میں۔ بعض احادیث میں اس کا جواز اور بعض میں ممانعت آئی ہے۔
جواز کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
استَرْقُوا لَها فاِنَّ بها النَّظْرَة، أی اطْلبُوا لها من يَرْقِيها.
’اسے جھاڑ پھونک کرو اس عورت کو نظربد لگ گئی ہے، مطلب یہ کہ اس کے کوئی جھاڑ پُھونک کرنیوالا تلاش کرو!‘‘
اور ممانعت کی ایک مثال یہ ہے:
لا يَسْتَرْقُون ولا يَکْتَوُون.
’نیک لوگ نہ جھاڑ پھونک کریں نہ داغیں۔‘
جھاڑ، پھونک اوردم درود کی تائید اور مخالفت میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ دونوں اطرف کی ان احادیث میں مطابقت یوں کی جا سکتی ہے کہ وہ جھاڑ پھونک مکروہ ہے جو جو عربی زبان میں نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے مقدس ناموں سے اس کی صفات اور کلام سے نہ ہو، اس کی نازل کردہ کتابوں میں نہ ہو اور عقیدہ یہ رکھا جائے کہ دم درود لازمی فائدہ دیگا اور اسی پر توکل کر لیا جائے۔
یہی مطلب فرمان پاک کا ہے:
ما توکّل من استرقیٰ.
’’جس نے جھاڑ پھونک کیا، اس نے توکل نہیں کیا‘‘
اس کے برخلاف جو جھاڑ پھونک مکروہ نہیں ہے اس کے متعلق ارشاد ہے:
کالتعوّذ بالقرآن وأَسمآء اللہ تعالٰی والرَّقَی المَرْوِيَةِ.
’’جیسے قرآن کریم اور اللہ تعالیٰ کے اسمائے مقدسہ اور اس کی صفات اور اس کی نازل کی گئی کتابوں میں جو کلام پاک ہے اور جو دم جھاڑ حدیث پاک میں مروی ہے۔‘‘
اسی لیے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی سے جنہوں نے قرآن کریم سے جھاڑ پھونک کی تھی اور اس پر اجرت بھی لی تھی، فرمایا: ’’وہ لوگ بھی تو ہیں جو باطل جھاڑ پھونک پر اجرت لیتے ہیں، تم نے تو برحق دم کر کے اجرت لی (مَنْ أخَذ برُقْية باطِلٍ فقد أَخَذْت بِرُقْية حَقٍّ) اور جیسے حضور کا یہ فرمان جو حدیث جابر میں ہے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اعْرِضُوْهَا عَلَيَ فعرَضْناها فقال لا باْس بها اِنما هی مواثِيقُ. کأَنّه خاف أَن يقع فيها شيی ممّا کانوا يتلفظون به و يعتقدونه من الشرک فی الجاهلية وما کان بغير اللسان العربی ممّا لا يعرف له ترجمته ولا يمکن الوقوف عليه فلا يجوز استعماله.
’’وہ دم جھاڑ میرے سامنے لاؤ! ہم نے پیش کر دیا فرمایا کوئی حرج نہیں یہ تو وعدے معائدے ہیں۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈر تھا کہ کہیں دم میں کوئی ایسا حرف نہ ہو جسے وہ بولا کرتے اور جس شرک کا دورِ جاہلیت میں عقیدہ رکھتے تھے یا جو عربی زبان میں نہ ہو جس کا ترجمہ نہ آئے اور نہ اس کا مفہوم تک پہنچنا ممکن ہو ایسا دم جائز نہیں۔
رہا سرکار کا یہ فرمان کہ: ’’نظربد اور بخار کے علاوہ کسی اور مقصد کیلیے دم درود نہیں‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دم سے بڑھ کر کوئی دم بہتر اور نفع دینے والا نہیں۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سے زائد صحابہ کرام کو جھاڑ پھونک کا حکم دیا۔ اور ایک بڑی جماعت کے بارے میں سنا کہ وہ جھاڑ پھونک کرتے تھے اور آپ نے ان پر انکار نہیں فرمایا۔
علامه ابن منظور افريقی، متوفی711ه، لسان العرب، 5: 294، طبع بيروت
علامه سيد مرتضي الحسينی الواسطی الزبيدی الحنفی، تاج العروس شرع القاموس، 10: 154، طبع بيروت
احادیث مقدسہ سے دم درود اور تعویذات کے متعلق درج ذیل رہنمائی ملتی ہے:
1۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ما أنزل اللہ داء اِلَّا أنزلَ له شفاء.
’’اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کے لیے شفاء نہ اتاری ہو۔‘‘
بخاری، المتوفی 256ه، الصحيح، 5: 2151، کتاب الطب، رقم: 5354، دار ابن کثيراليمامة. بيروت، سن اشاعت 1987ء
2۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لِکُلِّ دائٍ دواءٌ، فاذا اُصِيْبَ دواءٌ برَأ باذن اللہ عزوجل.
’’ہر بیماری کیلیے دواء ہے جب دواء بیماری کو پہنچتی ہے، بیماری اللہ عزوجل کے حکم سے ٹھیک ہو جاتی ہے۔‘‘
مسلم، المتوفی 261ه، الصحيح، 4: 1729، رقم: 2204، داراحياء التراث العربي. بيروت
3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رخَّصَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فِی الرُّقْيَةَ مِنَ العين وَالحُمَةِ والنَّمْلة.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین چیزوں کیلیے جھاڑ پھونک کی اجازت دی: (1) نظربد (2) بچھو وغیرہ کے کاٹے پر (3) پھوڑے پھنسی کیلیے۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4: 1725، رقم: 2196
4۔ امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
أن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کان يأمرها أن تسترقی من العين.
’’کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) کو نظربد سے بچنے کیلیے جھاڑ پھونک کا حکم دیا کرتے تھے۔‘‘
بخاری، الصحيح، 5: 2166، رقم: 5406
مسلم، الصحيح، 4: 1725، رقم: 2195
5۔ امّ المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے گھر ایک لڑکی دیکھی جس کا چہرہ زرد تھا۔ فرمایا:
اِسْتَرْقُوْا لها فانّ بها النظرة.
’’ اسے جھاڑ پھونک کرو، اسے نظر لگ گئی ہے۔‘‘
بخاری، الصحيح، 5: 2167، رقم: 5407
مسلم، الصحيح، 4: 1725، رقم: 2197
6۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
نهٰی رسُولُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم عنِ الرُّقی، فجاء آل عمرو بن حزم اِلی رسول صلی الله عليه وآله وسلم فقالوا يارسول اللہ اِنّه کانت عندنا رقيةً نرقی بها من العقرب وانک نهيت عن الرقی قال فَعَرضُوْهَا عليه فقال ما أری بأسا من استطاع منکم أنْ ينفعَ اُخاه فَلْيَنْفَعْهُ.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا، عمرو بن حزم کے خاندان والوں نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی یا رسول اللہ! ہمارے پاس ایک وظیفہ تھا، جس سے ہم بچھو کے کاٹے کو جھاڑتے تھے اور آپ نے جھاڑ پھونک سے منع فرما دیا ہے، ان لوگوں نے وہ ورد وظیفہ سرکار کے سامنے پیش کیا، فرمایا مجھے تو اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی، تم میں جو کوئی اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے اسے ضرور نفع پہنچائے۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4: 1726، رقم: 2199
احمد بن حنبل، المسند، 3: 315، رقم: 14422
7. عوف بن مالک الاشجعی سے روایت ہے: ہم لوگ دور جاہلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اِعْرِضُوْا عَلَيَ رُقاکم، لَا بأسَ بالرُّقیٰ ما لَمْ يکُنْ فِيْهِ شِرکٌ.
’’اپنا جھاڑ پھونک مجھ پر پیش کرو (پھر فرمایا) جب تک شرک نہ ہو جھاڑ پھونک میں حرج نہیں۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4: 1727، رقم: 2200
سیدہ شفاء بنت عبد اللہ سے روایت ہے کہ میں ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا:
الا لتُعَلِّميْنَ هٰذه رقية النملة کما عَلَّمْتِيها الکتابة.
(اے شفاء!) تم اس (حفصہ) کو پھوڑے پھنسی کا دم کیوں نہیں سکھاتیں؟ جیسے تم نے اسے لکھنا سکھایا۔
أبوداؤد، المتوفی 275ه، السنن، 4: 11، رقم: 3887، دارالفکر
9. حضرت عثمان بن عبد اللہ بن موھب سے مروی ہے کہ:
أرْسَلَنِی أَهْلِی اِلٰی أُمِّ سَلَمَةَ بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ وَقَبَضَ اِسْرَائِيلُ ثَلَاثَ أَصَابِعَ مِنْ فِضَّةٍ، فِيهِ شَعَرٌ مِنْ شَعَر ِالنَّبِی ِّصلی الله عليه وآله وسلم وَ کانَ اِذَا أَصَابَ الْاِنْسَانَ عَيْنٌ أَوْ شَيْئٌ بَعَثَ اِلَيْهَا مِخْضَبَهُ فاطَّلَعْتُ فی الجُلْجُلِ فَرَأَيْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا.
’’میرے گھر والوں نے ایک پیالے میں پانی ڈال کر مجھے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت بھیجا اسماعیل نامی راوی نے تین انگلیوں کے ذریعے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ اتنا چھوٹا تھا۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بال مبارک موجود تھا۔ جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا کوئی شخص بیمار ہو جاتا تو وہ اپنا برتن سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیج دیتا اور وہ اس بال مبارک کو اس پانی میں ڈبو دیتی تھیں، میں نے پیالے میں جھانک کر دیکھا تو مجھے اس میں کچھ سرخ بال نظر آئے۔‘‘
1.بخاری، الصحيح، 5: 2210، رقم: 5557
10۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ:
أنّ النّبی ّصلی الله عليه وآله وسلم کانَ ينفث علٰی نفسه فی المرض الّذی مات فيه بالْمُعَوِذاّتِ. فلمّا ثقَل کُنْتُ أنفث عليه بهنّ واَمْسَحُ بيد نفسه لبرکتها فسألت الزّهری کيف ينفث؟ قال کانَ يَنْفِثُ علٰی يديه ثم يَمْسَح بهما وجهه.
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مرض موت میں معوّذات (سورہ خلق، سورہ الناس) پڑھ کر اپنے اوپر دم فرماتے تھے۔ جب کمزور ہو گئے تو وہی کلمات پڑھ کر میں دم کرتی تھی اور میں حصول برکت کیلیے آپ سرکار کے ہاتھ مبارک چُھوتی۔ معمر کہتے ہیں میں نے امام زہری رحمہ اللہ سے پوچھا حضور اپنے اوپر کیسے دم کرتے تھے؟ انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مبارک ہاتھوں پر دم کر کے چہرہ اقدس پر مل لیتے تھے۔
بخاری، الصحيح 5: 2165، رقم: 5403
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں: الرُّقیٰ بفاتحۃ الکتاب ’’فاتحہ سے دم کرنا‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ ایک باب قائم کیا ہے:
11۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ کرام کا قبائل عرب میں سے ایک قبیلہ پر گزر ہوا۔ انہوں نے ان صحابہ کرام کی مہمان نوازی نہ کی۔ اسی اثناء میں ان لوگوں کے سردار کو سانپ یا بچھّو کا ڈنگ لگا۔ بستی والوں نے کہا تمہارے پاس کوئی دواء یا دم کرنے والا ہے؟ صحابہ کرام نے جواب دیا: تم نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی (کھانا نہیں کھلایا) ہم (بھی) دم نہیں کریں گے جب تک بکریوں کا پورا ریوڑ ہمیں نہ دو اب ان لوگوں نے بکریوں کا ریوڑ ان حضرات کو دیا حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ نے سورہ فاتحہ پڑھ کر دم، جھاڑ شروع کر دیا۔ لعاب دہن جمع کر کے زخم پر لگاتے جاتے۔ وہ شخص ٹھیک ہو گیا۔ بکریوں کا ریوڑ ان کے سپرد کرنے لگے تو صحابہ کرام کہا ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھے بغیر نہیں لیں گے۔ پھر سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا آپ ہنس پڑے اور فرمایا:
مأ ادرٰک أنها رُقْيَةٌ، خذوها واضربوا لی بِسَهْمٍ.
تجھے کیسے پتہ چل گیا کہ یہ دم ہے؟ لو! اور میرا حصہ مجھے دو!
بخاری، الصحيح، 5: 2166، رقم: 5404
12۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ:
فکرهوا ذلک وقالوا أخذت علٰی کتاب اللہ أجرا حتی قدموا المدينة فقالوا يا رسول اللہ أخذ علی کتاب اللہ أجرا، فقال رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم انّ أحقّ ما أخذتم عليه أجرا کتاب اللہ.
’’ساتھیوں نے اسے ناپسند کیا اور کہا آپ نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے؟ یہاں تک کہ مدینہ منورہ پہنچے اور کہا یا رسول اللہ اس (ابو سعید خدری) نے اللہ کتاب پر اجرت لی ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک جس چیز پر تم اجرت لینے کے زیادہ حقدار ہو، وہ اللہ کی کتاب ہے۔‘‘
1.بخاری، الصحيح، 5: 2166، رقم: 5405
2.حميدی، جمع بين صحيحين، 2: 75، رقم: 1082
یعنی لوگ جادو! شرکیات، شیطانی ٹونے ٹوٹکے اور جھاڑ پھونک کے ذریعہ پیسہ کماتے ہیں جو باطل اور شیطنت ہے۔ تم نے تو ستھرا سودا کیا۔ قرآن کریم سے دم کیا اور اس پر اُجرت لی جو سیدھا راستہ ہے۔
13۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ:
أن يسترقیٰ من العين.
’’ نظر بد سے بچنے کیلیے دم کیا جائے۔‘‘
بخاری، الصحيح، 5: 2166، رقم: 5406
14۔ اسود بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سانپ یا بچھو وغیرہ کے کاٹے پر دم کرنے کا پوچھا تو آپ نے فرمایا:
رخّص النبی صلی الله عليه وآله وسلم الرُّقْيَةَ من کل ذی حُمَة.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر بچھو، سانپ وغیرہ کے ڈسے پر دم کرنے کی اجازت دی۔
بخاری، الصحيح، 5: 2167، رقم: 5409
15۔ عبد العزیز بن صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں اور ثابت بنانی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے۔ ثابت نے کہا اے ابوحمزہ (انس کی کُنیت) میں بیمار ہوں۔ حضرت انس نے فرمایا: کیا آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والا دم نہ کروں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ انہوں نے یہ دم کیا:
اللّٰهُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْهِبَ الْبَاس اِشْفِ أنْتَ الشَّافِيْ لَا شَافِيَ اِلَّا اَنْتَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقْمًا.
’’اے اللہ لوگوں کے پروردگار تکلیف دُور فرمانے والے شفاء عطا فرما، تُو ہی شفاء دینے والا ہے تیرے سوا کوئی شفاء دینے والا نہیں، ایسی شفاء جو کوئی بیماری نہ چھوڑے۔‘‘
بخاری، الصحيح، 5: 2167، رقم: 5410
حميدی، جمع بين صحيحين، 2: 630، رقم: 2076
16۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض اہل خانہ کیلیے اس طرح دم کرتے تھے۔ دائیاں ہاتھ مبارک دردکی جگہ رکھ کر یہ دعا پڑھتے:
اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ أذْهَبِ الْباَسَ، اشْفِه وَاَنْتَ الشَّافِيْ لَا شَفآءَ اِلَّا شِفَاؤُک شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقْمًا.
’’اے اللہ! لوگوں کے پروردگار بیماری ختم فرما اور اسے شفاء عطا فرما، اور تو وہی شفاء بخشنے والا ہے۔ شفاء تو بس تیری شفاء ہے، ایسی شفاء جو بیماری کا نام و نشاں نہ چھوڑے۔‘‘
بخاری، الصحيح 5: 2168، رقم؛ 5411
17۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح دم فرماتے:
اَمْسَحِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ بِيَدِکَ الشِّفَآءُ لَا کَاشِفَ لَه اِلَّا أنْتَ.
’’تکلیف دُور فرما پروردگار عالم! تیرے ہی ہاتھ ہے شفاء اس تکلیف کو تیرے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں۔‘‘
ابن حبان، الصحيح، 13: 463، رقم: 6096
حميدی، الجمع بين الصحيحين، 4: 138، رقم: 3251
18۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مریض سے فرماتے تھے:
بِسْم اللہ تُرْبَة اَرْضِنا برِيْقَة ُبَعْضِنَا يَشْفِيْ سَقِيْمَنَا بَاِذْنِ ربِّنَا.
’’اللہ کے نام سے یہ ہماری زمین کی مٹی ہے اور ہمارے بعض بزرگوں کا لعاب (تھوک) یہ شفاء بخشے گا ہمارے بیمار کو، ہمارے رب کے حکم سے‘‘
بخاری، الصحيح، 5: 2168، رقم: 5413
مسلم، الصحيح، 4: 1724. رقم: 2194
19۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لاتے:
نَفَثَ فِيْ کَفَّيهِ بقُلْ هُوَ اللہُ أحَدٌ و بالمعوّذتَيْنِ جَمِيْعًا ثمّ يَمْسَحُ بِهِما وَجْهَه وَمَا بَلَغَتْ يَدَاهُ مِنْ جَسَدِه، قالَت عائشةُ: فلَمَّا اشْتَکٰی کانَ ياَمْرُنِيْ اَنْ اَفْعَلَ ذٰلکَ بِه.
’’تو قُلْ ھُوَ اللہ اَحَدٌ (سورہ اخلاص) اور مُعوّذتَيْن (آخری دو سورتیں) پڑھ کر دونوں ہاتھوں پر دم کرتے پھر دونوں ہاتھوں سے چہرہ اقدس اور جسم اقدس پر جہاں تک ہاتھ مبارک پہنچتے ملتے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوتے مجھے ویسے ہی دم کرنے کا فرماتے۔‘‘
بخاری، الصحيح، 5: 2169، رقم: 5416
امام حاکم نے دم درود کے بارے میں جو احادیث صحیح نقل کی ہیں درج ذیل ہیں:
20. عن عائشة رضی اللہ عنها قالت: امرنی رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم أن أسترقی من العين.
’’ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نظر کا دم (جھاڑ) کرنے کا حکم دیا۔‘‘
حاکم، المستدرک، 4: 457، رقم: 8267
حميدی، الجمع بين الصحيحين، 4: 163، رقم: 3286
21۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھا ایک اعرابی نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی یارسول اللہ! میرے بھائی کو درد ہے فرمایا کیا درد ہے؟ عرض کی حضور کچھ ہے فرمایا میرے پاس لاؤ، وہ اسے لائے اور سرکار کے سامنے رکھ دیا، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری چار آیتیں اور یہ دو آیتیں: وَاِلٰهُکُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ، لَآ اِلٰهَ اِلَّا هو الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ اور آیۃ الکرسی اور سورہ اٰل عمران کی یہ آیت: شَهِدَ اللہُ اَنَّهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ اور ایک یہ آیت سورہ الاعراف سے: اِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰت وَالْاَرْضَ اور سورہ المؤمنون کے آخر سے: فَتَعالَی اللہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ اور سورہ جن کی آیت: وَاِنَّه تَعَالٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّ لَا وَلَدًا اور سورہ الاخلاص اور مُعوّذتین پڑھ کر دم کیا تو وہ شخص ایسے اُٹھ کھڑا ہوا جیسے کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔
حاکم، المستدرک، 4: 458، رقم: 8269
هندی، کنزالعمال، 2: 116، رقم: 3978
بيهقی، الدعوات الکبير، 2: 313، رقم: 527
22۔ حضرت سہل بن حنیف فرماتے ہیں ہم سیلاب سے گزرے، میں نے سیلابی پانی میں غسل کر لیا، باہر نکلا تو بخار ہو گیا۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی گئی، فرمایا:
مُروا ابا ثابت يتعوّذ.
’’ابو ثابت سے کہو جھاڑے‘‘
میں نے عرض کی میرے آقا! دم جھاڑ ٹھیک کر دے گا؟ فرمایا:
لا رقية الّا فی نَفْسٍ اَوْ حُمّةٍ او لَدْغَةٍ.
’’جھاڑ تو خون، نکسیر، بخار ڈسے پر ہی ہوتی ہے۔
احمد بن حنبل، المسند، 3: 486، رقم: 16021
حاکم، المستدرک، 4: 458، رقم: 8270
23۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
انّ رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کان اذا اصابه رمد او احد من اهله و اصحابه دَعَا بهٰؤلَآءِ الکلمات: اللَّهُمَّ مَتِّعْنِيْ بِبَصْرَيْ واجَعْلَهُ الورث منیّ وارنی فی العدّو ثاری وانصُرنی علٰی مَن ظَلَمنِيْ.
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا آپ کے کسی گھر والے اور صحابہ کرام میں سے کسی کی آنکھوں میں آشوب ہو جاتا تو ان کلمات سے دم دعا فرماتے: اے اللہ میری آنکھ سے مجھے فائدہ دے اور اس کو میرا وارث بنا اور دشمن میں مجھے بدلہ دکھا اور جو مجھ پر ظلم کرے اس کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو کوئی چھینک کی آواز سن کر یہ پڑھے:
الحمد لِلّٰهِ علٰی کُلِّ حَالٍ.
’’ہر حال میں اللہ کا شکر ہے۔‘‘
اسے داڑھ اور کان کا درد نہ ہو گا۔
حاکم، المستدرک، 4: 459، رقم: 8272
هندی، کنزالعمال، 7: 50، رقم: 18365
24۔ حضرت جابر بن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عمرو بن حزم انصاری رضی اللہ عنہ آئے یہ صاحب سانپ کے ڈسے کو (جھاڑ) کرتے تھے:
فقالَ يا رسُولَ اللہ اِنّکَ نَهَيْتَ عَنِ الرُّقیٰ وَ اَنَا اَرْقِيْ وَ اَنَا اَرْقِيْ مِنَ الْحَيَةِ، قال قَصِّهَا علَیّ فقَصَّهَا عَلَيْهِ فقَال لَا بأسَ بَهٰذِه، هٰذِه مَوَاثِيْقُ قال و جاء خالی من الانصار و کان يرقی من العقرب فقال يا رسول اللہ انّکَ نهيت عن الرقی و انا ارقی من العقرب، قال من استطاع ان ينفع اخاه فليفعل.
’’عرض کی یا رَسُولَ اللہ! آپ نے دم جھاڑ سے منع فرما دیا جبکہ میں سانپ کے ڈسے کو دم کرتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ دم مجھے پڑھ کر سناؤ۔ انہوں نے پڑھ کر سنایا، فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں یہ تو اللہ کے وعدے ہیں۔ کہتے ہیں میرے انصاری ماموں آئے وہ بچھو کا دم کرتے تھے، عرض کی یا رسول اللہ! آپ نے دم کرنے سے منع فرمایا ہے جبکہ میں بچھو کاٹے کو دم کرتا ہوں۔ فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، پہنچائے‘‘
حاکم، المستدرک، 4: 460، رقم: 8277
حميدی، الجمع بين الصحيحين، 2: 391، رقم: 1645
25۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
مَنْ قال حِيْنَ يمسی أَعُوْذُ بِکَلمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ.
’’شام کے وقت جو کوئی یہ پڑھے میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کامل کلمات کے ساتھ اس کی مخلوق کے شر سے اس رات اسے سانپ نہیں ڈسے گا‘‘
حاکم، المستدرک، 4: 461، رقم: 8280
26۔ قیس بن طلق اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ:
’ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بچھو نے کاٹا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے دم کیا اپنے ہاتھ مبارک سے اس جگہ مس فرمایا‘
حاکم، المستدرک، 4: 461، رقم: 8281
طبرانی، المعجم الکبير، 8: 338، رقم: 8263
27۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دم کرتے ہوئے یوں کہتے تھے:
کان اِذَا اشتکیٰ رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم رقاه جبرئيل عليه السلام قال: بِسْمِ اللہِ يُبْرِيْکَ وَ مِنْ کُلِّ دَاءٍ يَشْفِيْکَ و منْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ وَ شَرِّ کُلِّ ذِيْ عَيْنٍ .
’’اللہ کے نام سے وہ آپ کو ٹھیک کرے گا ہر بیماری سے آپ کو شفاء دے گا اور حسد کرنے والے کے حسد سے جب حسد کرے اور ہر نظر والے کی نظر بد سے۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4: 1718، رقم: 2185
28۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبرئیل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی:
يا مُحَمّد اُشتکيتَ قال نعم.
’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ بیمار ہیں؟ فرمایا ہاں‘‘
انہوں نے یہ دم پڑھا:
بِسْمِ اللہ اَرْقِيْکَ مِنْ کلّ شی يُؤْذِيْکَ مِنْ شرّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْعَيْنٍ حاسدٍ اللہ يَشْفِيْکَ بِسْم اللہ ِاَرْقِيْکَ.
’’اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے ہر نفس یا نظر ِحاسد کے شر سے، اللہ آپ کو شفاء دے، اللہ کے نام سے آپ کو دم (جھاڑ) کرتا ہوں۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4: 1718، رقم: 2186
أبويعلی، المسند، 2: 327، رقم: 1066
29۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، اس وقت حضور کو سخت بخار تھا، انہوں نے یہ دم پڑھا:
. بِسْمِ اللہ أرْقِيْکَ مِنْ کُلِّ شَیٍ يُؤْذِيْکَ من کُلِّ حَسَدٍ وَّ حَاسِدٍ وَ کُلِّ غَمٍّ وَ اِسْمُ اللہِ يَشْفِيْکَ.
’’میں اللہ کے نام سے آپ کو جھاڑتا ہوں، ہر ایسی چیز سے جو آپ کو تکلیف دے ہر حسد اور حسد کرنے والے سے اور ہر غم سے اور اللہ کا نام آپ کو شفا دے۔‘‘
حاکم، المستدرک، 4: 457، رقم: 8268
30۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ لوگ جھاڑ پھونک کرتے جس میں شرک کی آمیزش تھی تو سرکار نے دم کرنے سے منع فرما دیا ایک صحابی کو سانپ نے ڈس لیا حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:
هَلْ مِن رَاقٍ يَرْقِيْه؟ فقال رجل: اِنی کنتُ اَرْقِی رُقيةً، فلمّا نهيتَ عن الرقیٰ ترکتُها، قال: فاعرضها عليَ، فعرضتها عليه، فلم يرَ بها بأساً فأَمره فرقاه.
’’کوئی دم کرنے والا ہے جو اس شخص کو جھاڑے؟ ایک صاحب نے عرض کی سرکار میں دم جھاڑ کرتا تھا پھر سے آپ سرکار نے منع فرمایا میں نے اسے چھوڑ دیا۔ فرمایا: لاؤ میرے سامنے میں نے سرکار کی خدمت میں پیش کر دیا اس میں کوئی غلط بات نہ پا کر فرمایا: اسے جھاڑو، اس نے سانپ ڈسے کو جھاڑ لیا‘‘
امام عبدالرزاق الصنعانی، المتوفی 211ه، المصنف، 11: 16، رقم: 19767، المکتب الاسلامی بيروت، سن أشاعت 1403ه
31۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں تمام قسم کے دردوں اور بخار سے شفاء پانے کیلئے یہ دعا سکھاتے تھے:
بِسْمِ اللہ الْکَبِيْرِ أعُوْذُ بِاللہِ الْعَظِيْمِ مِنْ شَرِّ عَرَقِ نَعَارِ، ومِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ.
’’خدائے بزرگ و برتر کے نام سے میں خدائے بزرگ سے پناہ مانگتا ہوں، رگ سے بہتے خون کے شر سے اور آگ کی تپش کے شر سے‘‘
عبدالرزاق، المصنف، 11: 17، رقم: 19771
عبد بن حميد بن نصر أبو محمد الکسی، المتوفی 249ه، المسند، 1: 204
32۔ صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ!
رَأيْتَ اتّقاءً نتَّقِيه، ودواءً نتداوی به، ورقیً نسترقی بها، أَتُغْنِيْ منَ الْقَدْر؟ فقال النبی صلی الله عليه وآله وسلم: هِيَ من القدر.
’’آپ کے خیال مبارک میں ہم کسی چیز سے بچاؤ کی تدبیر کرتے ہیں یا کسی تکلیف میں دواء استعمال کرتے ہیں یا کسی دم سے جھاڑ کرتے ہیں، کیا یہ چیزیں ہمیں تقدیر سے بچا لیں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ سب کچھ تقدیر ہے‘‘
عبد الرزاق، المصنف، 11: 18، رقم: 19777
احمد بن حنبل، المسند، 3: 421، رقم: 15510
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے امام بدرالدین عینی فرماتے ہیں:
انما قال صلی الله عليه وآله وسلم اضربوا لی معکم بسهم ای بنصيب تطييبًا لقلوبهم و مبالغة فی تعريفهم انه حلال.
’’اپنے ساتھ میرا حصہ نکالو، یہ صرف اس لیے فرمایا کہ ان کے دل خوش ہو جائیں اور ان کی تعریف میں مبالغہ کر کے یہ واضح کرنا تھا کہ یہ جھاڑ پھونک بھی جائز ہے اور اس پر اجرت لینا بھی حلال ہے۔‘‘
علامه شيخ بدر الدين ابومحمد محمود بن العينی، متوفی 855ه، عمدة القاری شرح بخاری، 21: 271.272
امام نوی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:
لا مخالفة بل المدح فی ترک الرقی المراد بها الرقی التی هی من کلام الکفار و الرقی المجهولة و التی بغير العربية و ما لا يعرف معناها فهٰذه مذمومة لا حتمال أن معناها کفر أو قريب منه أو مکروه و أما الرقی بِآيات القرآن و بالأذکار المعروفة فلا نهی فيه بل هو سنّة.
’’حدیثوں میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ جن احادیث میں جھاڑ پھونک ترک کرنے کی تعریف ہے اس سے مراد وہ دم ہے جو کافروں کے کلام سے کیا جائے یا مجہول کلمات سے ہو یا غیر عربی ہو یا جن کا معنی کچھ نہ ہو یہ جھاڑ پھونک (گنڈے تعویذ) مذموم ہیں۔ کیونکہ کفر یا اس کے قریب یا مکروہ ہونے کا احتمال ہے۔ رہ گیا قرآنی آیتوں یا مشہور و معروف اذکار سے دم کرنا تو یہ منع نہیں بلکہ یہ تو سنّت ہے‘‘۔ ۔ ۔ و قد نقلوا الاجماع علٰی جواز الرقیٰ بالاٰیات و اذکار اللہ تعالٰی۔ ’’ائمہ دین نے آیتوں اور اللہ کے اذکار سے دم کرنے کے جوازپر اجماع نقل کیا ہے۔‘‘
امام نووی، متوفی 676ھ، شرح مسلم، 2: 227، باب الطب والمرض ولرقیٰ، طبع لاہور
علامہ ابن القیم کا قول ہے کہ:
اِذا ثبت أن لبعض الکلام خواص و منافع فما الظّنّ بکلام رب العالمين ثم بالفاتحة التی لم ينزل فی القرآن ولا غيره من الکتب مثلها لتضمنّها جميع معانی القرآن.
’’جب یہ حقیقت ثابت ہے کہ بعض کلام کے خواص اور فائدے ہوتے ہیں، تو رب العالمین کے کلام کے بارے میں کیا خیال ہے، پھر فاتحہ کے بارے میں جس کی مثال نہ قرآن میں نہ باقی کتابوں میں کہ یہ مشتمل ہے قرآن کے تمام معانی پر۔‘‘
علامه ابن حجرعسقلانی، فتح الباری شرع صحيح بخاری، 10: 198، طبع دارالفکر
فقہائے اسلام گنڈا تعویذ، دم درود اور جھاڑ پھونک کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
1۔ فتویٰ عالمگیری میں ہے:
الاسترقاء بالقرآن نحو أن يقرأ علی المرض و الملدوغ أو يکتب فی ورق و يعلق أو يکتب فی طست فيغسل و يسقی المريض فأباحه عطاء و مجاهد و أبو قلابة...فقد ثبت ذلک فی المشاهير من غير اِنکار و الذی رعف فلا يرقأ دمه فأراد أن يکتب بدمه علٰی جبهته شيْاً من القرآن يجوز و کذا لو کتب علی جلد ميتة اذا کان فيه شفاء ولا باس بتعليق التعويذ و لٰکن يترعه عند الخلاء و القربان.
’’قرآن کریم سے دم (جھاڑ پھونک) کرنا یوں کہ مریض اور (سانپ، بچھو وغیرہ سے) ڈسے پر قرآن پڑھے یا کاغذ پر لکھ کر گلے وغیرہ میں لٹکائے یا پلیٹ پر لکھ کر اور اس تحریر کو دھو کر بیمار کو پلائے اسے عطاء، مجاہد اور ابو قلابہ نے جائز قرار دیا ہے، مشہور ائمہ میں یہ عمل بغیر انکار ثابت ہے۔ اور جس کی نکسیر نہ رُکتی ہو اور وہ اپنے اُسی خون سے اپنی پیشانی پر قرآن کریم کی کوئی آیت لکھنا چاہے تو یہ جائز ہے۔ یونہی مردار کے (رنگے ہوئے) چمڑہ پر لکھنا جب اس میں شفاء (کی امید)ہو جائز ہے۔ اور گلے میں تعویذ لٹکانے میں حرج نہیں، ہاں بیت الخلاء یا بیوی سے قربت کے وقت اتار دے۔‘‘
الشیخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندیة المشهور فتاویٰ عالمکیری، 5: 356، طبع کوئته
2۔ امام ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:
التميمة المکروهة ما کان بغير القرآن... ولا بأس بالمعاذات اِذا کتب فيها القرآن أو أسماء اللہ تعالٰی... انما تکره العوذة اِذا کانت لغير لسان العرب ولا يدري... أو شی من الدعوات فلا باس به.
’’مکرہ تعویذ وہ ہے جو قرآن کے علاوہ ہو، ان گنڈے تعویذوں سے شفاء حاصل کرنے میں حرج نہیں جن میں قرآن یا اللہ کے نام لکھے ہوں۔ اور وہ تعویذات جو عربی زبان کے علاوہ ہوں اور پتہ نہ چلے یہ کیا ہے، ممکن ہے اس میں جادو، کفر وغیرہ شامل ہو جائے۔ مگروہ گنڈہ تعویذ جو قرآن سے ہو یا کوئی دعا ہو، اس میں حرج نہیں۔‘‘
ابن عابدين شامی، ردالمحتار، 6: 363، دار الفکر للطباعة و النشر. بيروت
وہ مزید فرماتے ہیں:
اختلف فی الاستشفاء بالقرآن بايقرأ علی المريض أو الملدوغ الفاتحة أو يکتب فی ورق و يعلّق عليه أو فی طست و يغسل و يسقٰی و عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم أنه کان يعوذ نفسه و علی الجواز عمل الناس اليوم وبه و ردت الأثار ولا بأس بأن يشدّ الجنب و الحائض التعاويذ علی العضر اذا کانت ملفوفة.
’’قرآن کے ذریعہ شفاء حاصل کرنے میں اختلاف ہے۔ مثلاً بیمار یا (سانپ، بچھو وغیرہ سے) ڈسے پر فاتحہ پڑھنا یا کسی کاغذ میں لکھ کر اس کے گلے وغیرہ پر لٹکا دیا جائے یا پلیٹ پر لکھ کر اور اس لکھے کو دھو کر پلایا جائے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے۔ اور آج لوگوں کا جواز پر ہی عمل ہے اور روایات و احادیث اسی کی تائید میں وارد ہیں۔ اور جُنبی اور حیض والی لفافے میں بند (جیسے چاندی یا چمڑے میں ہوتا ہے) تعویذ بازُو پر باندھیں، اس میں حرج نہیں۔‘‘
ابن عابدين شامی، ردالمحتار، 6: 364
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں باقی جائز ہیں۔
علامه شوکانی، نيل الاوطار، 1: 345، فصل ردشرک، الرقیٰ والتمائم
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب اس سلسلے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ:
امروہہ میں ایک ہندو تھا وہ حضرت عبدالباری سے کمال اعتقاد رکھتا تھا۔ اس نے آپ سے عرض کیا کہ میرے کوئی اولاد نہیں ہے تعویذ دیجیے۔ حضرت نے تعویذ دے کر فرمایا کہ ابھی تو اپنی بیوی کے بازو پر باندھ دو اور بعد تولّدِ فرزند، اس کے بازو پر باندھ دینا۔ تعویذ کی برکت سے اس کے لڑکا پیدا ہوا۔ جب وہ سنِ تمیز کو پہنچا باغوائے بعض ہنود اس تعویذ کو کھول ڈالا اس میں ’’اُڑری بھنبیری ساون آیا‘‘ لکھا تھا۔ پڑھ کر اس نے تعویذ پھینک دیا۔ پھینک کر وہ نہانے کو گیا دریا میں ڈوب کر مر گیا۔
مولانا اشرف علی تهانوی، امداد المشتاق الیٰ اشرف الاخلاق، ص: 118، طبع لاهور
بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے بالکل منع فرما دیا تھا لیکن بعد میں اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت دے دی کہ اس میں شرک نہ ہو، اللہ کے پاک ناموں یا اس کے کلام سے جھاڑا جائے، کلام ایسا ہو جو سمجھ میں آئے اور یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس میں کوئی گناہ کی چیز نہیں ہے، اور بھروسہ جھاڑ پھونک پر نہ کیا جائے کہ وہ بجائے خود شفاء دینے والی ہے، بلکہ اللہ پر اعتماد کیا جائے کہ وہ چاہے گا تو اسے نافع بنا دے گا۔ یہ مسئلہ شرعی واضح ہو جانے کے بعد اب دیکھیے کہ احادیث اس بارے میں کیا کہتی ہیں۔‘‘ اس کے بعد مولانا مودودی نے وہ تمام احادیث نقل کر دیں جو ہم نقل کر آئے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں:
’’اب اگر دوا اور علاج کرنے کے ساتھ اللہ کے کلام اور اس کے اسمائے حُسنٰی سے بھی استفادہ کیا جائے، یا ایسی جگہ جہاں کوئی طبی امداد میسر نہ ہو، اللہ ہی کی طرف رجوع کر کے اس کے کلام اور اسمائے و صفات سے استعانت کی جائے تو مادہ پرستوں کے سوا کسی کی عقل کے بھی خلاف نہیں ہے۔‘‘
مولانا مودودی، تفهيم القرآن، 6: 560، طبع لاهور
آج کل بعض لوگ جہاں دیگر بہت سے اسلامی معمولات کو ’’شرک و بدت‘‘ کہ کر لوگوں کے دلوں میں نفرت و نفاق کے بیج ڈالتے ہیں اُن میں ایک گنڈا، تعویذ اور دم درود بھی ہے۔ اسلام میں جہاں بیماریوں کے مادی علاج ہیں یعنی جڑی بوٹیوں اور دوائیوں سے، اللہ تعالی کے کلام اور اسمائے حسنی اور مسنون و متبرک دعاؤں سے بھی اللہ پاک شفاء دیتا ہے، ان میں بھی اُسی نے تاثیر رکھی ہے۔ مگر تمام تر تاثیر اس کے مشیت و ارادہ پر موقوف ہے۔ جب چاہے دواء یا دعا سے شفاء دے، نہ چاہے تو نہ دے اس پر کوئی جبر نہیں۔ دواء میں لازمی شفاء ہوتی تو ہسپتالوں سے ہر مریض شفایاب ہو کر نکلتا، بیرون ملک لاکھوں کروڑوں کے مہنگے علاج کرانے والوں کے تابوت نہ آتے۔ وہ چاہے تو معمولی دیسی پڑیا سے شفاء مل جائے، کسی بندہ خدا بھلے وہ کیسا ہی گناہگار ہو اس کی پھونک سے شفاء ہو جائے، چاہے تو دعا کار گر نہ دواء میں اثر۔ یہ متعصب جہلاء ڈاکٹروں حکیموں کے پاس جانے سے تو منع نہیں کرتے، ان کے خلاف نفرت آمیز پروپیگنڈا نہیں کرتے مگر کوئی بندہ خدا اگر کسی بیمار کو اللہ کے نام و کلام سے دم کرے، تعویذ بنا کر دے، پانی وغیرہ دم کر کے دے اور شفاء دینے والے خدا سے مصیبت زدہ مریض کے لئے شفاء طلب کرے تو جھٹ فتویٰ کفر و شرک جڑھ دیتے ہیں۔ ہم نے اس موضوع پر قرآن و سنت عمل صحابہ کرام و ائمہ امت بلکہ خود معاندین کے اکابر کے فتاویٰ و اقوال سے مزین اس مضمون میں ثابت کیا ہے کہ قرآن و سنت کی رُو سے کلمات طیبات، آیات و آثار سے دم کرنا، جھاڑنا نہ صرف جائز و مستحسن ہے بلکہ قرآن و سنت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام، آل اطہار اور علماء اولیاء امت میں سے آج تک کسی نے اس کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا اس کی تائید میں ہم نے ہر مسلک و مذہب کے اکابر کی تصریحات بھی پیش کر دیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو شیطانی وسوسوں کے شر سے محفوظ رکھے ان شاء اللہ اس کے پڑھنے سے بہت سے ذہنی عقدے کشا ہونگے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔