جواب:
سورۃ الجن کی جو آیت بیان کی گئی ہے، اس میں یہ بات واضح ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس ذاتی اختیار نہیں، بلکہ عطائی ہے اور تمام اہل سنت وجماعت کا یہی عقیدہ ہے کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے تمام فضائل اختیار اور علمی وسعت عطائی من جانب اللہ ہے۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ سے بہت زیادہ احادیث سنتا ہوں مگر یاد نہیں رہتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چادر بچھا دو۔ چادر بچھا دی گئی حضور علیہ الصلاۃ والسلام چلو بھر بھر کے چادر میں ڈال رہے ہیں، پھر فرمایا سینے سے لگا دو فرماتے ہیں :
فضممت الی صدری
تو میں نے چادر اپنے سینے سے لگا دی، اس کے بعد میں کبھی نہیں بھولا ہوں، تو یہ کیا ہے نفع ہے کہ نہیں۔ دنیا میں کوئی کسی کو حافظہ دے سکتا ہے، ہرگز نہیں یہ صرف آپ کی شان ہے کہ حافظہ بھی عطا کر دیا۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ.
(التَّوْبَة ، 9 : 59)
اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا، قرآن سے جواب لو تو لفظ فضل رسول کہتے بھی استعمال ہوا۔
صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا
انی أسئلک فرافقتک فی الجنة.
آپ نے فرمایا
أو غير ذالک
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو اور میرا بندہ برابر نفلی عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اگر مجھ سے وہ سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں، میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی اس طرح متردد نہیں ہوتا جیسے بندہ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں۔
صحيح بخاری کتاب : بدء الخلق، باب : ذکر الملائکة، 3 / 1175، حديث نمبر : 3037
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہیں جو لوگوں ( کے ظاہر و باطن) کو (اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ) فہم و فراست سے جان لیتے ہیں۔
المعجم الوسيط : 3 / 207، حديث نمبر : 2935
درج بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض ایسے بندے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بے پناہ قوت عطا کرتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے یہ بندے دوسرے لوگوں سے ممتاز اور منفرد بن جاتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندے ہوتے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیا ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہوتے ہیں۔ حدیث قدسی میں جیسا کہ اوپر ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ قوت بصارت اللہ کی ہوتی ہے جس سے ظاہری و باطنی سارے پردے اٹھ جاتے ہیں، ہر چیز اس کے لیے منکشف ہو جاتی ہے اور وہ دلوں کے حالات بھی جان لیتے ہیں اور یہ سارا اللہ تعالیٰ کا فضل اور نعمت ہوتی ہے اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ معاذ اللہ یہ شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے حالات جانتا ہے یہ اس کا ذاتی علم ہے اور بندہ پر اگر کرم نوازی ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے، اس بندے کا ذاتی علم نہیں ہوتا۔ دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اولیاء کرام کے حوالے سے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اولیاء اللہ کو ایسا فہم وفراست اور ایسی بصارت عطا کرتا ہے جس سے وہ دلوں کے حالات جان لیتے ہیں، جب ساری کی ساری قوت، طاقت، نعمت علم اللہ تعالیٰ کا ہو تو پھر اولیاء اللہ سے سارے پردے اٹھ جاتے ہیں اور وہ اس مقام پر فائز ہو جاتے ہیں جس پر کوئی عام شخص نہیں ہو سکتا۔
ولله العزة ولرسوله وللمومنين.
(الْمُنَافِقُوْن ، 63 : 8)
"حالانکہ عزّت تو صرف اللہ کے لئے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور مومنوں کے لئے ہے۔"
لفظ عزت حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے لئے اور مومنوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے اب فتوی کس پر؟
هَذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ
(ص 38 : 39)
"(ارشاد ہوا:) یہ ہماری عطا ہے (خواہ دوسروں پر) احسان کرو یا (اپنے تک) روکے رکھو (دونوں حالتوں میں) کوئی حساب نہیں"
بخاری شریف میں حدیث پاک ہے :
انما أنا قاسم والله يعطی
بے شک قاسم میں ہی ہوں اور اللہ دینے والا ہے۔
قیامت کے دن جب امتیں تمام انبیاء کرام کے پاس شفاعت کے لئے جائیں، تو سب یہی جواب دیں گے کہ آگے جاؤ آخر میں سیدنا عیسی علیہ السلام فرمائیں گے۔
عليکم بمحمد صلی الله عليه وآله وسلم
تو یہاں یہی مطلب ہے۔
خوشی نعمت ہے، اللہ پاک سارے انبیاءکرام اور رسل عظام باعث فرحت وخوشی ہے اور ان کے وجود مبارک سے تکلیفیں دور ہو جاتی ہیں۔ سعدیہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ مشہور ہے کہ لیت بھی تنگ دستی کی حالت میں آتی تھی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے دونوں جہانوں کی خوشیاں نصیب ہوئیں۔
من کنت مولاه فعلی مولاه
جس کا میں مولا ہوں تو علی اس کا مولا ہے۔
(ترمذی شريف)
بی بی مریم علیہ السلام کے سیدنا جبرائیل آمین آئے اور فرمایا :
قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّا
(سورة مريم 19 : 19)
(جبرائیل علیہ السلام نے) کہا: میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں
ہم نے جو کچھ لکھا ہے قرآن وحدیث سے لکھا اور ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم نے اللہ کے بندوں کو اللہ کے مقابل لا کھڑا کیا، العیاذ باللہ
بلکہ فقط یہ مطلوب ہے کہ اللہ پاک اپنے بندوں کو عزت طاقت اختیارات عطا کرتا ہے، تاکہ عام بندوں سے ممتاز ہوں۔
یہ اصول ہے کہ کبھی بھی ایک آیت قرآن یا ایک حدیث لے کر ایک مسئلے کا حل پیش نہ کیا جائے۔
بلکہ تمام قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سامنے رکھ کر توحید اور شرک جیسا بہت بڑا مسئلہ کا حل پیش کرنا چاہیے۔ اللہ پاک کے تمام اختیارات قدرت ذاتی ہے، کسی کو اس میں ایک بال برابر شرکت نہیں ہے۔
انبیاء کرام اور اولیاء کرام کو اللہ پاک نے عطا کی ہے، اللہ معبود خالق ہے۔ انبیاء کرام اور اولیاء کرام مخلوق اور عبد ہیں۔ یہ تمام اختیارات اور عزت وقدرت اللہ کے لئے حقیقی ہیں اور مقربین کے لئے مجازا ثابت ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔