جواب:
تصوف سراسر ادب کا نام ہے، بغیر ادب کے اس راہ میں کچھ نہیں ملتا جو سالک ادب سے محروم رہتا ہے وہ مقام قرب سے دور اور مقام قبولیت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
شهاب الدين سهروردی رحمة الله عليه، عوارف المعارف : 562
پس مربی اور روحانی استاد کے سامنے سالک کا دستور اور طرز عمل ایسا ہونا چاہیے کہ وہ نہ بلند آواز میں گفتگو کرے نہ بہت زیادہ ہنسے، زبان کو خاموش رکھے، شیخ سے زیادہ سوالات نہ کرے، شیخ کی اتباع اپنے اوپر لازم کرے، کھانے پینے، سونے بلکہ ہر نیک کام کو جو شیخ و مربی سے صادر ہو درست سمجھے اگرچہ وہ بظاہر درست نظر نہ آئے۔ شیخ و مربی کی حرکات و سکنات پر نکتہ چینی اور اعتراض نہ کرے کیونکہ رائی برابر اعتراض بھی محرومی کے سوا کچھ نہیں دیتا جو بھی اور جہاں سے بھی کچھ فیض ملے اسے اپنے پیر کی طرف سے جانے، اپنے آپ کو مکمل طور پر اپنے شیخ کے سپرد کر دے۔ شیخ کی طر ف ہمہ وقت اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ شیخ سے کبھی غلط بیانی نہ کرے کبھی خیانت کا برتاؤ نہ کرے جو کچھ اپنی ذات کے لئے محبوب جانتا ہے شیخ کے لئے بھی محبوب جانے۔ چلنے، بولنے، کھانے غرض ہر کام میں شیخ سے پہل نہ کرے کبھی اپنے شیخ کی طرف پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھے، کبھی اپنی پشت نہ کرے۔ شیخ کی موجودگی میں دوسری عبادات میں مشغول نہ ہو بلکہ تصور شیخ میں گم رہے اور ان کی زیارت سے دل و نگاہ کو محظوظ کرے الغرض اپنی ہستی کو تلاش حق میں گم کر دینا ہی اصل سلوک ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔