Fatwa Online

کیا نماز کی حالت میں ٹخنوں سے اوپر شلوار رکھنا جائز ہے؟

سوال نمبر:1205

کیا نماز کے دوران ٹخنوں سے اوپر پاجامہ موڑے رکھنا جائز ہے؟ اگر نہیں تو دوسری احادیث پر عمل نہیں ہوتا۔ براہ مہربانی وضاحت سے جواب دیں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: عمر عطاری

  • مقام: انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 29 ستمبر 2011ء

موضوع:عبادات  |  نماز

جواب:

اصل میں اس مسئلہ میں یہ ہے کہ غرور و تکبر کسی مخلوق کی طرف سے بھی ہو، معیوب اور شریعت کی نگاہ میں مردو و مغضوب ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا :

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍo

(لقمان، 31 : 18)

اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر، اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بیشک اﷲ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہےo

حدیث پاک میں آتا ہے کہ

قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم الا اخبرکم باهل الجنة کل ضعيف متضعف لو اقسم علی الله لابره، الا اخبرکم باهل النار کل عتل  جواظ مستکبر.

(بخاری و مسلم)

کیا میں تمہیں اہل جنت کی خبر نہ دوں؟ ہر کمزور لوگوں کی نظروں میں اگر ہوا۔ اگر اللہ کے بھروسہ پر قسم اٹھا لے تو اللہ ضرور اس کی قسم پوری فرمائے، کیا میں تمہیں دوزخی لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہر درشت رو، سخت مزاج، مغرور و متکبر۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کے دل میں ذرہ بھر تکبر ہوا؟ جنت میں داخل نہ ہوگا۔

ان الرجل يحب ان يکون ثوبه، حسنا و نعله حسنا قال الله تعالی جميل يحب الجمال الکبر بطر الحق و غمظ الناس.

ایک شخص نے عرض کی، ہر آدمی اچھا کپڑا اور اچھا جوتا پسند کرتا ہے (تو کیا یہ تکبر ہے؟) فرمایا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے حسن کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر اللہ کے حضور اکڑنا اور اس کے حکم کو رد کرنا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا ہے۔

(مسلم شريف)

اس لئے اسلام غرور و تکبر اور اس کی علامات سے منع کرتا ہے اور آدمی میں توضع و انکساری پیدا کرتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

من تواضع لله رفعه الله فهو فی نفسه صغير و فی اعين الناس عظيم و من تکبر وضعه الله فهو فی اعين الناس صغير و فی نفسه کبير حتی فهو اهون عليهم من کلب او خنزير.

(مشکوٰة، ص 434، بحواله بيهقی)

جو اللہ کے آگے جھکتا ہے، اللہ اس کو بلند کرتا ہے، وہ اپنے خیال میں چھوٹا اور لوگوں کی نظر میں بڑا ہوتا ہے اور جو غرور کرتا ہے، اللہ اسے نیچا کر دیتا ہے۔ وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا اور اپنی نگاہ میں کتے اور خنزیر سے بھی ذلیل ہوتا ہے۔

غرور و تکبر کی کئی صورتیں ہیں۔ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کو معاذ اللہ گھٹیا سمجھنا، اپنی باتوں کو قانون سمجھنا اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کو رد کرنا، جیسا ہماری اسمبلیوں میں ہوتا ہے، ہمارے سیاستدان اور حکمران کرتے ہیں کہ اپنی باتوں کو قانون قرار دے کر ملک میں نافذ کرتے ہیں اور قرآن و سنت کی ہدایات کو مسترد کر دیتے ہیں۔ یہ غرور و تکبر کی بدترین صورت ہے۔ یہ خدا کی سیٹ پر بیٹھے خدائی کر رہے ہیں۔ خدا کا قانون معطل اور ان کا قانون جاری و ساری اور پھر بھی پکے مسلمان۔

یونہی علم و عرفان کے مدعی، غریبوں سے نفرت، امیروں سے عقیدت۔ حالانکہ خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سب کے لیے رؤف سب کے لیے رحیم ہیں۔ ان کی نظر عنایت کیوں ایک طرف جھکی رہتی ہے؟ غریب سے دو انگلیوں سے مصافحہ اور امیر سے مصافحہ و معانقہ و قیام و طعام۔

غرور و تکبر سے ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا

مغرور و متکبر لوگوں کی بد اعمالیوں اور بے اعمالیوں کی یہ ادنی سی مثال ہے، ورنہ سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے۔ غرور و تکبر کا اظہار، بیاہ شادی، ولادت، موت، دفتر، دکان، گھر، بازار ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

لا يدخل النار احد فی قلبه مثقال حبة من خردل من ايمان ولا يدخل الجنة احد فی قلبه مثقال حبة من خردل من کبر.

(صحيح مسلم)

کوئی ایسا شخص دوزخ میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان ہوا اور جنت میں نہیں جائے گا، کوئی ایسا شخص جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی غرور و تکبر ہوا۔

دوسرے موقع پر فرمایا :

من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله اليه يوم القيامة.

(بخاری و مسلم)

جو شخص غرور و تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نگاہ کرم نہیں فرمائے گا۔

نیز فرماتے ہیں :

ما اسفل من الکعبين من الازار فی النار.

(بخاری)

غرور و تکبر سے چادر (یا شلوار، پینٹ، پاجامہ وغیرہ) کو جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہے، جہنم میں ہوگا۔

وضاحت مسئلہ

ان ارشادات پر بار بار غور کریں جو شخص غرور و تکبر سے کپڑا گھسیٹے اسے عذاب سے ڈرایا گیا ہے، اس کی نمایاں مثال چوہدری، جاگیر دار ہیں، جو اعلیٰ قیمتی تہ بند (دھوتی) پہن کر زمین پر گھسیٹتے ہوئے مٹکتے چلتے ہیں۔ تاکہ لوگوں پر اپنا دولت مندی و امارت کا رعب ڈال سکیں۔ اسی چیز سے منع کرنا مقصود ہے کہ اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو گھٹیا نہ سمجھا جائے۔ اللہ کی نعمت کی بے قدری نہ کی جائے، اگر یہ وجوہات نہ ہوں تو ٹخنوں سے نیچے شلوار، دھوتی، پاجامہ یا پتلون وغیرہ کا ہونا ہرگز گناہ یا منع نہیں اور یہ اعلان خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جیساکہ خیلاء کے لفظ سے واضح ہے کہ غرور و تکبر سے چادر گھسیٹنا حرام ہے، اگر یہ بات نہ ہو تو حرام نہیں، جائز ہے۔

قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله اليه يوم القيامة، فقال ابو بکر ان احد شقی ثوبيی يستخرجی الا ان اتعاهد ذالک منه، فقال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم انک لست تصنع ذلک خيلاء.

(صحيح بخاری، 1 : 517، طبع کراچی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو اپنا کپڑا تکبر و غرور سے گھسیٹے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس پر نظرکرم نہیں فرمائے گا۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی، میرے کپڑے کا ایک کونہ، اگر پکڑ نہ رکھوں، نیچے لٹک جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم ایسا غرور و تکبر سے نہیں کرتے۔

گویا جس بات سے دوسروں کو اس لیے منع فرمایا کہ اس میں غرور و تکبر ہے، اس کی اجازت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس لیے دی کہ ان میں غرور و تکبر نہیں۔ پس اصل ممانعت غرور و تکبر کی ہے۔ جن محکموں میں ملازمین کی وردی ہوتی ہے، ان کو قانوناً اسی طرح پہننا پڑتی ہے، جس کا مشاہدہ ہر شخص کرتا ہے، اس پابندی میں اعلیٰ ترین آفیسرز سے لے کر ایک سپاہی یا اہل کار تک، سب شامل ہیں۔ نہ پتلون زمین پر گھسٹتی ہے نہ کوئی غرور و تکبر سے پہنی جاتی ہے۔ پس اس صورت میں پتلون، شلوار، پاجامہ یا چادر کا ٹخنوں سے نیچے ہونا ہرگز مکروہ، حرام یا ممنوع نہیں۔ زیادہ سے زیادہ بعض لوگوں نے ایسی صورت میں مکروہ تنزیہی کا قول کیا ہے، جو خلاف اولیٰ ہوتا ہے حرام نہیں۔ (مزید مطالعہ کے لیے شرح بخاری، شرح مشکوٰۃ للشیخ عبدالحق محدث دہلوی و فتاوی عالمگیری)

پس آپ جس طرح نماز پڑھیں جائز ہے، شرعاً قدغن نہیں۔ جو شدت کرے ان سے حوالہ جات کا جواب پوچھیں، اللہ پاک ہمیں سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 21 November, 2024 07:45:42 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1205/