کُلوا وَاشْرَبُوا حَتَّی يَتَبَيّنَ لَکُمُ الْخَيْطُ الْابْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ.
براہ مہربانی اس مسئلے کی قرآن و حدیث سے وضاحت فرما دیں۔ شکریہ
جواب:
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام بدر الدین عینی شارح بخاری شریف فرماتے ہیں :
ان الصائم له ان ياکل و يشرب الی طلوع الفجر الصادق فاذا طلع الفجر الصادق کف. و هذا قول جمهور من الصحابة و التابعين.
(عمدة القاری، 10 : 297)
روزہ دار کے لیے جائز ہے کہ وہ کھائے پیئے صبح صادق تک، جب صبح صادق طلوع ہو تو کھانا پینا بند کر دے۔ فرماتے ہیں کہ جمہور صحابہ کرام اور تابعین کا یہی مذھب ہے۔
صحیح مسلم شریف میں روایت ہے جسے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے :
کان لرسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ان بلالا يوذن بليل فکلوا و اشربوا حتی يوذن ابن ام مکتوم و لم يکن بينهما الا ان ينزل هذا و يرفی هذا.
(صحيح مسلم، 1 : 350)
آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دو موذن تھے، حضرت بلال اور ام مکتوم رضی اللہ عنہما تو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا بلال رات کے وقت اذان دیتا ہے تو تم کھاؤ اور پیئو جب تک ام مکتوم اذان نہ دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان تھوڑا فاصلہ ہوتا تھا یعنی جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نیچے آتے تو حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ اذان کے لیے جاتے۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سحری کے لیے یا نماز تہجد کے لیے تھی اور ابن مکتوم رضی اللہ عنہ نماز فجر کے لیے اذان دیتے تھے۔ لہذا فجر کے بعد کھانا پینا بند کیا گیا۔ جونہی فجر صادق طلوع ہوتی ہے تو نماز فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے اگر کوئی موذن صبح صادق سے پہلے اذان دیتا ہے تو اس کا اعتبار نہیں۔ لیکن عام طور پر ہمارے ہاں تمام موذنین طلوع فجر کے بعد اذان دیتے ہیں۔ لہذا اذان کے بعد کھانا پینا بند ہو جانا چاہیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔