جواب:
قرآن وسنت کی رو سے طلاق دینا خاوند کے اختیار میں ہے۔ ہاں اگر خاوند کسی اور کو طلاق کا اختیار دے دے تو وہ بھی مختار ہے۔ طلاق دینا اچھی بات نہیں، لیکن بعض مواقع پر اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا دینے کی اجازت ہے۔ لیکن ہماری بد قسمتی کہ عوام کی اکثریت ان مسائل سے نابلد ہے اور طلاق دیتے وقت کسی اہل علم سے مشورہ لینے کی بجائے فٹ پاتھوں پر بیٹھے وثیقہ نویسوں سے بھاری فیس ادا کرکے اپنی دنیا اور آخرت کا بیڑا غرق کر لیتے ہیں۔ وہ جاہل طلاق ثلاثہ، یعنی طلاق، طلاق، طلاق کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ بس یہی جانتے ہیں اور یہی طلاق نامے میں لکھتے ہیں۔ خاوند آنکھیں بند کر کے فیس بھی دے دیتا ہے اور لا علمی کی بنا پر تین طلاقوں کے پکے اشٹام پر دستخط کر کے اپنی بربادی کا سامان بھی کر لیتا ہے۔
ان جاہل اشٹام فروشوں کو کہو کہ ایک طلاق بھی ہو جاتی ہے، تین تین نہ لکھا کرو۔ بیک وقت تین طلاقیں دینے سے منع فرمایا گیا ہے۔ نیز حلالہ نکالنے اور نکلوانے والے پر لعنت کی گئی ہے۔ بیک وقت تین طلاقوں پر شارع علیہ السلام نے زجر و توبیخ فرمائی ہے۔ جو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ بیک وقت بھی تین طلاقیں ہو جاتی ہیں۔ ورنہ ناراضگی کا کیا مطلب؟ ناراضگی اسی لیے تو ہے کہ ایک شخص نادانی میں اپنا بیڑا غرق کر لیتا ہے جو خدائے رحمن اور نبی رؤف الرحیم کی ناراضگی کا سبب ہے۔ اگر تین طلاقیں ہوتی ہی ایک، تو پھر اس ناراضگی کی ضرورت نہ تھی۔
اب ہم آپ کی خدمت میں مسئلہ طلاق کی قرآن و سنت سے پوری وضاحت کر دیتے ہیں :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ.
(البقرة، 2 : 229)
طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے،
یہ ایک یا دو طلاقیں رجعی ہیں۔ خواہ خاوند مال لے کر دے، جسے خلع کہتے ہیں یا بغیر مال لیے دے۔ عدت کے اندر اندر اگر دونوں فریق رضا مند ہوں اور خاوند چاہے تو رجوع کر کے ازدواجی تعلقات برقرار رکھ سکتا ہے۔ اگر عدت گزر گئی اور رجوع نہ کیا تو دوبارہ نکاح کر کے ازدواجی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ.
(البقرۃ، 2 : 230)
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتہ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے،
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ابغض الحلال الی الله الطلاق.
(ابو داؤد، بحواله مشکوة، ص : 283)
جائز باتوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے بد تر اور مکروہ تر چیز طلاق ہے۔
جس طرح تین طلاقیں بیک وقت نا پسندیدہ ہیں۔ اسی طرح مطلق طلاق بھی ناپسندیدہ ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص یہ نا پسندیدہ کام کرے تو ہو جاتا ہے۔ لہٰذا خاوند ایک طلاق دے تو ایک، دو دے تو دو، تین دے تو تین واقع ہو جائیں گی۔ پسندیدہ نہ ایک ہے، نہ دو اور نہ تین۔ البتہ نا پسندیدگی کے درجے ہیں۔ اعلیٰ ترین درجہ یعنی بد ترین طلاق وہ ہے جو بیک وقت تین طلاقوں کی صورت میں ہو۔ جیسے گولی چلانا، چھری چلانا، زہر کھانا اپنے لیے یا کسی بے گناہ کے لیے حرام ہے۔ لیکن ایسا کر دے تو اثر تو لازمی طور پر ظاہر ہوگا یا کوئی مرے گا یا زخمی ہوگا۔ جیسے یہ کہنا غلط ہے کہ چونکہ خود کشی حرام ہے۔ لہذا ہو سکتا ہی نہیں، یہ کہنا بھی غلط ہے کہ چونکہ بیک وقت تین طلاقیں منع ہیں، لہٰذا کوئی دے دے تو ہو سکتی ہی نہیں۔ نہیں بلکہ بد تر ہونے کے باوجود ہو جاتی ہیں۔ اگر تین طلاقیں واقع ہی نہ ہوں تو مذمت کس بنا پر ہوتی؟
1۔ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو پکی اور قطعی طلاق دی۔ بیوی کا نام سھیمہ تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رکانہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اللہ کی قسم میری نیت ایک طلاق کی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
و الله ما اردت الا واحدة.
خدا کی قسم! کیا تم نے ایک ہی کی نیت کی تھی؟
رکانہ نے کہا :
و الله ما اردت الا واحدة، فردها اليه رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فطلقها الثانية فی زمان عمر و الثالثة فی زمان عثمان.
(ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجه، دارمی بحواله مشکوٰة، ص : 284)
بخدا میں نے اس کو صرف ایک طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا۔ پس اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے لوٹا دیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس نے اس بی بی کو دوسری طلاق دی اور خلافت عثمان رضی اللہ عنہ میں تیسری طلاق دی۔
اگر ایک بار تین طلاق کا امکان ہی نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حلفاً یہ کیوں فرماتے کیا تم نے ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی؟ آج بھی اگر کوئی شخص دوسری بار یا تیسری بار لفظ طلاق پہلے کی تاکید کے لیے استعمال کرے تو نیت صحیح ہے۔ لیکن عدالت اس کی نیت کا اعتبار نہیں کرے گی۔ لہٰذا قضاء تین ہی ہوں گی۔ گو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی نیت کا اعتبار ہوگا۔
لہٰذا صورت مسؤلہ میں خاوند نے بڑی صراحت کے ساتھ تین طلاقیں تاکید سے تحریر کر دیں۔ وہ تینوں واقع ہو گئیں۔ اب یہ بی بی اس پر قطعی حرام ہو گئی، دوبارہ اس وقت تک ان میں ازدواجی تعلقات قائم نہیں ہو سکتے، جب تک یہ عورت کسی اور سے نکاح و قربت نہ کرے۔ پھر وہ دوسرا خاوند نکاح و قربت کے بعد اس کو طلاق دے دے۔ پھر وہ عورت اس دوسرے خاوند کی عدت گزار کر اگر چاہے تو پہلے والے خاوند سے از سر نو نکاح کر سکتی ہے، جس نے تین طلاقیں دی تھیں۔
جیسا کہ یہ بات اوپر با حوالہ قرآن و حدیث ذکر کر دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل و ہدایت دے۔ آمین
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔