جواب:
2005ء میں دِمشق میں تحریک منہاج القرآن کے وابستگان کی طرف سے منعقد کی گئی محفل
سماع کے بعض حصوں کو کچھ عاقبت نااندیش لوگوں کی طرف سے کانٹ چھانٹ کر انٹرنیٹ پر upload
کیے جانے والے video clip کے ذریعے یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ شاید لوگ شیخ الاسلام ڈاکٹر
محمد طاہرالقادری کو سجدہ کرتے ہیں اور شیخ الاسلام سجدہ کرنے والوں کو شاباش دیتے
ہیں۔ العیاذ باﷲ! ایسا واقعہ ہرگز نہیں ہوا، یہ محض بہتان تراشی ہے۔ ایسا بہتان لگانے
والے دراصل اپنے عقائد باطلہ پر زد پڑنے سے خائف ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
جیسی علمی شخصیت کے علمی و تحقیقی کام کے ذریعے ایسے لوگوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچنے
اور ان کے مذموم مقاصد بے نقاب ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے وہ ایسی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے
کی ناکام کوشش کرتے ہیں جس نے انہیں علم اور دلائل کی بنیاد پر چیلنج کر کے ان کے بے
بنیاد اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ آسمان کی طرف منہ کرکے تھوکیں
گے تو اپنے اوپر ہی گرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ تقبیلِ رِجلین یعنی بزرگ اور صالح شخصیات کے پاؤں چومنا نہ صرف ثابت شدہ شرعی اَمر ہے، بلکہ براہِ راست صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے ثابت ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اَقدس کو بوسہ دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک چومتے۔
سب سے پہلے ہم دِمشق میں منعقد ہونے والی محفل سماع کے ویڈیو کلپ پر بحث کریں گے تاکہ جن نادان اور کم فہم لوگوں کو یہ شک گزرا ہے کہ ایک شخص (معاذ اﷲ) شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو سجدہ کررہا ہے اُن کا اِشکال دور ہوجائے۔
یہاں تک ہم نے واضح کیا کہ شیخ الاسلام نے کبھی اپنے ہاتھوں اور قدموں کے چومنے کا عمل نہ پسند کیا اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی، سجدہ تو بہت دور کی بات ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے خطابات اور کتب میں جابجا غیر اللہ کے لیے سجدہ عبادت کو شرک اور سجدہ تعظیمی کو حرام قرار دیا ہے۔ حوالہ کے لیے ان کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب التوحید اور دوسری کتاب تعظیم اور عبادت ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قدم بوسی سجدہ ہے؟ کیا قدم بوسی شرک ہے؟ اِس کے بارے میں اِسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ لہٰذا اِس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے تاکہ اگر بعض حالات میں کسی نے تقبیلِ رِجلین (قدم بوسی) کر بھی لی تو اس پر کیا حکمِ شرعی لاگو ہوگا۔ ذیل میں اس سے متعلقہ چند احادیث و آثار درج کیے جاتے ہیں:
1۔ زارع بن عامر - جو وفدِ عبد القیس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے - سے مروی ہے:
لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِيْنَةَ فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَوَاحِلِنَا، فَنُقَبِّلُ يَدَ رَسُولِ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم وَرِجْلَهُ.
''جب ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو اپنی سواریوں سے کود کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے۔ ''
اس حدیث کو صحاح ستہ میں سے سنن ابی داود (کتاب الادب، باب قبلۃ الجسد، 4: 357، رقم: 5225) میں روایت کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اسے امام بیہقی نے السنن الکبری (7: 102) میں اور امام طبرانی نے اپنی دو کتب المعجم الکبیر (5 : 275، رقم : 5313) اور المعجم الاوسط (1 : 133، رقم : 418) میں روایت کیا ہے۔
2۔ امام بخاری نے ''الادب المفرد'' میں باب تقبيل الرِّجل قائم کیا ہے یعنی ''پاؤں کو بوسہ دینے کا بیان۔ '' اس باب کے اندر صفحہ نمبر 339 پر حدیث نمبر 975 کے تحت انہوں نے مذکورہ بالا حدیث کو حضرت وازع بن عامر رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
قَدِمْنَا, فَقِيْلَ: ذَاکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَأَخَذْنَا بِيَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ نُقَبِّلُهَا.
''ہم مدینہ حاضر ہوئے تو (ہمیں) کہا گیا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں اور قدموں سے لپٹ گئے اور اُنہیں بوسہ دینے لگے۔ ''
یہ الفاظ خاص مفہوم کے حامل ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے صرف ہاتھ مبارک پکڑنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ہاتھوں کے علاوہ پاؤں مبارک کو بھی بوسہ دینے کا عمل جاری رکھا درآں حالیکہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک پکڑ رکھے تھے۔
3۔ امام ترمذی نے اس مضمون پر ایک حدیث حضرت صفوان بن عسّال رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قومِ یہود کے بعض افراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کرنے کے بعد اعلانیہ گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں:
فَقَبَّلُوْا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ. وَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّکَ نَبِيٌّ.
''انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا، اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں۔''
اس حدیث مبارکہ کو امام نسائی نے السنن (کتاب تحریم الدم، 7 : 111، رقم : 4078) میں اور امام ابن ماجہ نے السنن (کتاب الادب، باب الرجل یقبّل ید الرجل، 2: 1221، رقم: 3705) میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو الجامع میں دو جگہ روایت کیا ہے: پہلی بار ابواب الاستئذان والآداب میں باب فی قبلۃ الید والرجل (5: 77، رقم: 2733) میں اور دوسری بار ابواب التفسیر کے باب ومن سورۃ بنی اسرائیل (5: 305، رقم: 3144) میں۔ امام احمد بن حنبل نے المسند (4: 239، 240) میں، امام حاکم نے المستدرک (1: 52، رقم: 20) میں، امام طیالسی نے المسند (ص: 160، رقم: 1164) میں اور امام مقدسی نے الاحادیث المختارہ (8: 29، رقم: 18) میں روایت کیا ہے۔
اتنے اجل محدثین کے اس حدیث کو روایت کرنے اور اس سے استشہاد کرنے کے باوجود بھی کوئی متعصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا، ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا عمل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ بابرکت ہستی نظر نہیں آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو تقبیل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری ہوا۔
4۔ علامہ ابن تیمیہ کے جلیل القدر شاگرد حافظ ابن کثیر سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 101 کی تفسیر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات پر خفا ہو کر جلال میں آگئے تو:
فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه فَقَبَّلَ رِجْلَهُ وَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، رَضِيْنَا بِاﷲِ رَبًّا وَبِکَ نَبِيًّا وَبِالإِْسْلَامِ دِيْنًا وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا فَاعْفُ عَنَّا عَفَا اﷲُ عَنْکَ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّی رَضِيَ.
''حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چوم کر عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، آپ کے نبی ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام و راہنما ہونے پر راضی ہیں، ہمیں معاف فرما دیجئے۔ اﷲ تعالیٰ آپ سے مزید راضی ہو گا۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل عرض کرتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہو گئے۔''
اس روایت کو دیگر مفسرین نے بھی متعلقہ آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے اجل صحابی کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چومنا اور خود تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں منع نہ فرمانا کیا (معاذ اللہ) عقیدہ توحید کی خلاف ورزی تھا۔
5۔ امام مقری (م 381ھ) اپنی کتاب تقبیل الید (ص: 64، رقم: 5) میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک اعرابی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور اس نے آکر عرض کیا: میں نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن میں کچھ مزید چاہتا ہوں تاکہ میرے یقین میں اضافہ ہوجائے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی تو اعرابی کے بلاوے پر ایک درخت اس کے پاس آیا اور اس نے کہا: یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔ اس کے بعد طویل روایت ہے اور آخر میں اعرابی نے تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد عرض کیا:
يا رسول الله! أئذن لي أن أقبل رأسك ورجلك.
"اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کاسر اقدس اور قدم مبارک چوم لوں۔"
اس کے بعد روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کو اجازت مرحمت فرمائی۔ اور پھر اس اعرابی نے سجدہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت نہ دی۔ امام مقری کی روایت کردہ اس حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری (11: 57) میں نقل کیا ہے۔ نیز علامہ مبارک پوری نے بھی تحفۃ الاحوذی (7: 437) میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔
یہ روایت بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدم چومنے کی اجازت تو دی لیکن سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اگر قدم چومنا اور سجدہ کرنا برابر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ان کے مابین فرق نہ فرماتے اور دونوں سے منع فرما دیتے۔
یہاں تک آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک چومے جانے پر چند احادیث کا حوالہ دیا گیا، جس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قدم بوسی ہرگز کوئی شرکیہ عمل نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنی ذات اقدس کے لیے بھی کبھی اس کی اجازت نہ دیتے۔
کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُنہیں اِس عمل سے نہ روکنا اور سکوت فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس کی اجازت نہ تھی؟ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہ عمل سنتِ تقریری نہ قرار پایا؟ اگر پاؤں چومنا نعوذ باﷲ سجدہ ہے تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کر رہے تھے؟ کیا (معاذ اﷲ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - جو توحید کا پیغام عام کرنے اور شرک کے خاتمے کے لیے مبعوث ہوئے - خود شرک کے عمل کی اجازت دے رہے تھے؟
کاش! قدم بوسی پر اعتراض کرنے والے پہلے کچھ مطالعہ ہی کر لیتے۔
کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ قدم بوسی صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مخصوص ہے۔ لہٰذا ذیل میں ہم اِس اَمر کا جائزہ لیتے ہیں کہ غیر انبیاء صالحین اور مشائخ عظام اور اکابر اسلام کی دست بوسی و قدم بوسی کی کیا حقیقت ہے؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ علماے کرام اور مشائخ عظام کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خدمت کی نسبت سے تعظیم و احترام بجا لانا منشاء اِسلام ہے۔ اِن کی تعظیم کو شرک کہنا باطل اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔ کتب سیر و احادیث کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اکابرین کی قدم بوسی ہمیشہ اہل محبت و ادب کا معمول رہی ہے۔ اِس سلسلے میں چند نظائر پیش خدمت ہیں:
1۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے، وہ بیان کرتے ہیں:
رَأَيْتُ عَلِيًّا يُقَبِّلُ يَدَ الْعَبَّاسِ وَرِجْلَيْهِ وَيَقُوْلُ: يَا عَمِّ ارْضَ عَنِّي.
''میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں چومتے دیکھا اور آپ ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے: اے چچا! مجھ سے راضی ہوجائیں۔''
اسے امام بخاری نے الادب المفرد (ص: 339، رقم: 976) میں، امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء (2: 94) میں، امام مزی نے تہذیب الکمال (13: 240، رقم: 2905) میں اور امام مقری نے تقبیل الید (ص: 76، رقم: 15) میں روایت کیا ہے۔
2۔ آسمان علم کے روشن ستارے اور ہر مسلک و مکتبہ فکر کے متفقہ محدث امام بخاری نے بھی اپنی کتاب الادب المفرد میں ہاتھ چومنے پر ایک پورا باب (نمبر 444) قائم کیا ہے۔ امام بخاری نے باب تقبيل اليد میں ''ہاتھ چومنے'' کے حوالے سے تین احادیث بیان کی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کرام، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارکہ کو چوما کرتے تھے؛ اور جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتے تو اسی طرح تابعین، صحابہ کرام کے ہاتھ چومتے۔ ان احادیث کو ذکر کر کے امام بخاری آدابِ زندگی بتارہے ہیں کہ بزرگوں کی سنت یہ تھی کہ شیوخ اور اکابر کا ہاتھ چوما کرتے تھے۔ یہاں تک کہ امام بخاری نے دین میں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا الگ باب قائم کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ امام بخاری اِس باب کے فوری بعد پاؤں چومنے کا باب - بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل - لائے ہیں۔
ظاہر ہے کہ امام بخاری نے کتاب الادب میں ان ابواب کو ترتیب دے کر یہ واضح کیا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھ چومنا اور قدم چومنا آداب میں سے ہے۔ اگر وہ اس عمل کو شرک یا سجدہ سمجھتے تو کبھی بھی آداب زندگی کے بیان پر مشتمل اپنی کتاب میں یہ ابواب قائم نہ کرتے اور نہ ہی ایسی احادیث لاتے۔
3۔ اسی طرح امام بخاری کے بعد امت مسلمہ کے نزدیک ثقہ ترین محدث امام مسلم کے شہر نیشاپور میں جب امام بخاری تشریف لائے اور امام مسلم ان کے پاس حاضر ہوئے تو اَئمہ کے اَحوال پر مبنی تمام کتب میں درج ہے کہ امام مسلم نے امام بخاری کا ماتھا چوما اور پھر ان سے اجازت مانگی کہ:
دعني حتی أقبّل رجليک، يا أستاذ الأستاذين وسيد المحدّثين وطبيب الحديث في علله.
''اے استاذوں کے استاذ، سید المحدّثین اور عللِ حدیث کے طبیب! آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے پاؤں کا بوسہ لے لوں۔''
اِمام بخاری اور امام مسلم کا یہ واقعہ ابن نقطہ نے 'التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید (1: 33)'میں، امام ذہبی نے 'سیر اعلام النبلاء (12: 432، 436)' میں، امام نووی نے 'تہذیب الاسماء واللغات (1: 88)' میں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے مقدمۃ فتح الباری (ص: 488)' میں اور برصغیر کے نام ور غیر مقلد نواب صدیق حسن قنوجی نے 'الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ (ص: 339)' میں روایت کیا ہے۔
4۔ علامہ شروانی شافعی 'حواشی (4: 84)' میں لکھتے ہیں:
قد تقرّر أنه يسنّ تقبيل يد الصالح بل ورجله.
''یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ صالح شخص کے ہاتھ اور پاؤں چومنا مسنون عمل ہے۔ ''
5۔ مسلک دیوبند کے نام ور عالم اور جامع الترمذی کے شارح علامہ ابو العلاء عبد الرحمان بن عبد الرحیم مبارک پوری کا علم الحدیث میں ایک نمایاں مقام ہے۔ انہوں نے تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی کی جلد سات کے صفحہ نمبر 437 پر ہاتھ اور پاؤں چومنے پر مذکورہ بالا تمام روایات بطور استشہاد درج کی ہیں، جس کے ان کے مسلک و مشرب کا واضح پتا چلتا ہے۔
اِس طرح کی بے شمار روایات بطور حوالہ پیش کی جاسکتی ہیں، مگر چند ایک کے حوالہ جات دینے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے، جوکہ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ صلحاء اور اَتقیاء کی دست بوسی و قدم بوسی کرنا جائز اور پسندیدہ عمل ہے۔ اہل تصوف و روحانیت مانتے ہیں کہ قدم بوسی معمول کا عمل نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنے والا عقیدت و محبت سے کرتا ہے۔ اور ایسا عمل بالخصوص قدم بوسی کا عمل ایسی شخصیت کے لیے بجا لایا جاتا جو علم و عمل میں اپنے دور کے امام کی حیثیت رکھتی ہو۔ لہٰذا ہمیں مسلک و جانب داریت کی عینک اُتار کر قرآن و سُنّت، عمل صحابہ اور عمل سلف صالحین کا مطالعہ کرکے کوئی فتویٰ صادر کرنا چاہیے اور بلا تحقیق و بلا مطالعہ کسی بات کو نہیں اُچھالنا چاہیے کیوں کہ بلا تحقیق کوئی بات آگے بیان کرنے سے تو قرآن حکیم بھی منع فرماتا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6 میں ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا.
"اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو۔"
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اہلِ ایمان کوحکم دیا کہ وہ کسی معاملے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اُسے اچھی طرح چھان پھٹک لیں کہ اُس میں حقیقت کیا ہے اور فسانہ کیا ہے! پھرجب شرح صدر سے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو اس کے بعد عملی اقدام اُٹھائیں۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمایا:
کَفٰی بِالْمَرْءِ کَذِبًا اَنْ يُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ.
(صحيح مسلم, كتاب الايمان, 1: 10, رقم: 5)
" آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (بغیر تحقیق کیے) آگے بیان کر دے۔"
گویا یہاں مومنوں سے کہاجا رہا ہے کہ وہ کسی بھی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے نہ مانیں، بلکہ مختلف ذرائع سے تصدیق کرنے کے بعد جب کسی بات کامبنی بر حق ہونا یقینی ہو جائے تو پھر ہی اُسے تسلیم کریں اور آگے روایت کریں کیوں کہ بغیر تحقیق کے کسی بات کو آگے بیان کردینا گویا جھوٹ بولنا ہے اور اس پر بھی بہت سی احادیث ہیں کہ مومن سب کچھ ہوسکتا ہے مگر جھوٹانہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ہم کہ سکتے ہیں کہ کوئی شخص ایسے فرامین مقدسہ صرف اسی صورت فراموش کرسکتا ہے جب اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو اور اسے روز روشن کی طرح واضح حقیقت نظر نہ آرہی ہو۔ جیسا کہ ہم نے آغاز میں بھی واضح کر دیا تھا کہ ایسا اعتراض کرنے والا اپنے عقائد، مذموم عزائم اور مفادات پر زد پڑنے کے خوف سے اس طرح کے بے بنیاد الزامات وضع کرتا ہے۔ علمی سطح پر شکست خوردہ ذہنیت بہتان تراشی کا سہارا لیتی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں ایسی جہالت اور فتنہ پروری سے محفوظ فرمائے اور ہمیں حق بات سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔